خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ [نشست ششم]




خطاب نمبر: Ca-17
تقریب: اعتکاف 2024
مقام: شہر اعتکاف, لاہور
مورخہ: 06 اپریل 2024
کیٹگری: دین و مذہب
تفصیل:
شہر اعتکاف کی چھٹی نشست سے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کا "خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟" کے موضوع پر آخری خطاب

انہوں نے کہا کہ ہر وہ شخص جو دیانت داری سے اِنسان کے اندر اور باہر کی کائنات میں غور و فکر کرے گا، وہ اللہ کی وحدانیت کا اِقرار اور اُس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شہرِ اِعتکاف میں پہلی بار آنے والے بیٹوں اور بیٹیوں کو میری طرف سے بہت پیار اور دعائیں ہیں۔ آپ ہمیشہ اِعتکاف میں آتے رہیں اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کا ساماں کرتے رہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہریت، لا مذہبیت اور ناخدائیت کی فکری لہر دو اڑھائی سو سال قبل مغرب میں شروع ہوئی تھی۔ آغاز میں اس فتنہ میں اِسلام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لہٰذا اس فتنہ کا پس منظر سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ فکری اِنتشار کا شکار ہونے والی نوجوان نسل اس کی تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔ درحقیقت یورپ میں ایک طویل عرصے تک ریاست اور چرچ کا گٹھ جوڑ تھا۔ وہاں چرچ کو خدا کے نمائندہ کی حیثیت دی جاتی تھی اور وہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ چرچ اور ریاست کے اس گٹھ جوڑ کے ردِ عمل میں فتنۂ اِنکارِ مذہب شروع ہوا۔ جب مذہبی راہ نُما مذہب کو اپنے مفادات کے حصول اور روزگار و دنیا کمانے کا ذریعہ بناتا ہے تو پھر اسے خود ساختہ نظریات گھڑنے پڑتے ہیں اور لوگوں کو اندھا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اس کی کہی کسی بات کو چیلنج نہ کریں۔ اور یوں وہ اپنی خود ساختہ اتھارٹی کو maintain رکھ سکے۔ یورپ کے مذہبی راہنما یہ برداشت نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کے بنائے ہوئے نظریات کو چیلنج کرے۔ اس لیے ایک ہزار سال تک یورپ میں سائنس کو ترقی نہیں کرنے دی گئی۔ اِس وجہ سے یورپ ان ہزار سالوں کو dark ages کہتا ہے کیوں کہ ان سالوں میں سائنسی تحقیقات آگے نہیں بڑھنے دی گئیں۔ یورپ میں مذہب اور سائنس کے مابین جاری جنگ میں بالآخر سائنس جیت گئی کیوں کہ ریاست کو چرچ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سیاست کسی کی وفادار نہیں ہوتی۔ یہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی وفادار ہوتی ہے۔ سیاست کا مفاد صرف سیاست ہے اور اپنے مفادات کی خاطر یہ رحمان اور شیطان دونوں سے اتحاد کر سکتی ہے۔ وطنِ عزیز کے مذہبی و سیاسی اور سماجی راہ نُماؤں نے معاشرے کو تماشبین بنا دیا ہے۔ اَخلاق، نصیحت، اچھائی، خوش خُلقی اور قرآن و و حدیث کی بات کریں تو سوشل میڈیا پر اس کی viewership نہیں ہوتی۔ عقل اور تحقیق کی بات کرنے والوں کو مذہبی راہ نُما اپنا مخالف سمجھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر سائنسی تحقیقات کو روکنا تھا تو مذہبی راہ نُماؤں کا سہارا لیا۔ اور جب ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر چرچ کو کچلنا تھا تو اس نے سائنس کا سہارا لیا۔ بعد ازاں مذہبی راہنما کمزور ہوئے تو خدا کا نمائندہ کہلانے والے مذہبی نمائندگان کے خلاف پلنے والی ایک ہزار سالہ نفرت صرف مذہبی راہ نُماؤں تک محدود نہ رہی بلکہ سائنس دانون نے مذہب اور خدا کے خلاف اپنا غصہ نکالا۔ حالاں کہ اَصلاً وہ خدا کے وجود کے انکاری نہ تھے بلکہ صرف اُن مذہبی راہ نُماؤں کے خلاف تھے۔ منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ صدیوں تک یورپ کا اِنحصار اسلامی تحقیقات پر رہا اور یورپ میں مسلم سائنس دانوں کے کتابیں پڑھائی جاتی رہیں۔ سر تھامس آرنلڈ کہتا ہے کہ یورپ کی dark ages میں مسلمان پوری دنیا کو سائنس، علم اور شعور دے رہے تھے۔ یورپ نے اسلام اور مسلمانوں سے سائنس سیکھ کر ترقی حاصل کی۔ جس دور میں مسلم سائنس دانوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ علوم سے سائنس کو فروغ دیا اُس وقت یورپ تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ میڈیکل سائنس کی پوری تاریخ میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جو ابن سینا کے کام سے زیادہ پڑھا یا چھَپا ہو۔ پروفیسر فلپ ہٹی اپنی کتاب History of the Arabs میں لکھتا ہے کہ اسلام کا علم اسپین اور سسلی کے ذریعے پورے یورپ میں پھیلا۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سائنس آج کثیر تحقیقات کے بعد کہتی ہے کہ کائنات کا سارا نظام zero defect ہے، جب کہ اللہ تعالی نے آج سے 1450 سال قبل قرآن مجید کے ذریعے اعلان کیا کہ ساری کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرلو تمہیں کہیں کوئی ہلکا سا نقص نظر نہیں آئے گا۔ اللہ نے عقل دی ہے۔ قرآن مجید پڑھیں اور سوچیں کہ کس طرح کائنات میں موجود تمام کہکشائیں اپنے مقررہ راستوں میں چلتی ہیں اور ان میں کوئی حادثہ یا مسئلہ نہیں ہوتا۔ کون ہے اس عظیم نظام کو پیدا کرنے والا؟ کون ہے اس کو برقرار رکھنے والا؟ ۔۔۔ وہ ایک خدا ہے۔