شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کا شہر اعتکاف میں ہزاروں معتکفین سے نویں نشست میں "حضرت داؤدؑ کی عاشقانِ اِلٰہی سے ملاقات اور اُن کی دعوات و مناجات" کے موضوع پر فکر انگیز خطاب
انہوں نے کہا کہ یہ وہ دور ہے جس میں ذہنی، فکری،فتنہ و انتشار پھیلانے اور لادینیت و دہریت اپنے عروج پر ہے۔ قول و فعل سے طہارت رخصت ہوگئی ہے، ہر طرف منافقت، منافرت، حقارت، غیبت، چغلی، بے ایمانی، بد دیانتی، خیانت، ظلم و جبر، ناانصافی ہے، انسان کے اندر سے انسانیت مر گئی ہے، ایسے ماحول میں جس میں کفر کی پرورش ہو رہی ہے، شاید عالَم کفر کی زمینیں جہاں کلمہ حق نہیں ہےتوحید اور رسالت پر ایمان نہیں، مگر انسانی اخلاقیات کے اعتبار سے ہمارے معاشرے سے وہ بے دین معاشرے 100گناہ بہتر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا؟ ہم کیوں ایسے ہو گئے؟ اعلیٰ انسانی، علمی و دینی قدریں تاجدارِ کائنات ﷺ نے انسانیت کو عطا کی تھیں، آقا ﷺ کی آمد سے پہلے پوری دنیا کفر و شرک اور جاہلیت کی دنیا تھی۔ ہم ذلت اور جہالت کے اِن گڑہوں میں کیسے پہنچ گئے؟ سوچنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں موجودہ تباہی کا ذمہ کسی فرد واحد یا حکمرانوں، سیاست دانوں کو ٹھہرانا درست نہیں ہے، اگر عوام بددیانت، دروغ گو، قانون شکن، بے رحم ہونگے تو حکمران اس سے دو گنا زیادہ برے ہونگے، سوسائٹی میں ظلم اس لیے ہوتا ہے کہ عوام ظلم کو قبول کرتے ہیں، ناانصافی اس لیے ہے کہ عوام اپنے اعمال اور معاملات میں خود ایسے ہیں، اگر عوام ٹھیک ہوں تو حکمران بھی ٹھیک ملیں گے کسی جماعت، سیاسی غیر سیاسی ادارے کو مورد الزام ٹہرانے کی سوچ غلط ہے بربادی کے ذمہ دار سب ہیں۔
لہذا اپنے نفس کو سنواریں، اپنے دل و دماغ کو سنواریں، اپنی سوچوں کو درست سمت دو، اچھائی اور برائی میں تمیز پیدا کریں۔ حق اور باطل میں فرق پیدا کریں۔
پاکیزگی طہارت اور غلاظت میں فرق پیدا کریں۔ حلال اور حرام میں فرق پیدا کریں۔ سوچوں میں اللہ کے اَمر اور نہی میں فرق پیدا کریں۔ خیر اور شر کا فرق سمجھیں۔ یہ مشکل چیزیں نہیں ہیں۔ جس چیز نے لوگوں کے ایمان اور شعور کو مردہ کر دیا تھا وہ ختم کر دیا جائے اور ایک نیا شعور عشقِ الہی سے اپنے دلوں میں روشن کر کے لے کر واپس جائیں۔ منہاج القرآن انہی اوصاف پیدا کرنے کی محنت کر رہی ہے ہر شعبہ میں تجدیدی خدمات انجام دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن فی الوقت کرہ ارض کی وہ واحد دینی و اصلاحی تحریک ہے جس نے ہزارہا خطابات اور سینکڑوں کتب کی صورت میں اُمت کو علم کا ذخیرہ دیا ہے، عقائد و ایمانیات سے مطعلق کوئی ایک ایسا موضوع نہیں ہے جس پر کتاب موجود نہ ہو۔ میں نے اور میرے خاندان میں سے آج تک کسی نے کتاب کی رائیلٹی نہیں لی اور نہ آئندہ کوئی لے گا، کتب سے حاصل ہونے والی جملہ آمدن دین کی ترویج و اشاعت پر صرف ہوتی ہے۔
آپ میرے خطاب اور کتاب دونوں سے جڑیں رہیں، اپنے گھروں کو مرکز علم بھی بنائیں اور مرکز کتب (لائبریری) بھی بنائیں، جب بھی وقت ملے کتب کے سٹال پر جائیں ہر موضوع پر کتاب دستیاب ہے، خطاب اور کتاب دونوں سے دائمی تعلق قائم کریں، خطاب سنیں اور کتاب سے محبت کریں۔
تبصرہ