فہم دين، تزکيہ نفس، توبہ اور آنسوؤں کي بستي "شہر اعتکاف" ميں چوتھے دن کا آغاز بھي روحاني ماحول اور پر کيف ساعتوں ميں ہوا۔ نماز فجر کے بعد اجتماعي طور پر کيے جانے والے وظائف نے روح پرور ساماں باندھ ديا۔ اجتماعي وظائف شہر اعتکاف کے ان لمحات ميں سے ہيں جس ميں معتکفين کا وجداني ذوق اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ وجداني شوق و ذوق کي انتہاء کے مناظر شيخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادري کے خطاب کے دوران ملتے ہے۔ شيخ الاسلام کے خطاب ميں معتکفين کي بڑي تعداد وجد کے روحاني ذوق سے آشنائي حاصل کرتي ہے۔ آج شيخ الاسلام کا خطاب معمول سے ايک گھنٹہ تاخير سے شروع ہوا۔
خطاب شيخ الاسلام
شيخ الاسلام نے "اخوت اور صحبت" کے موضوع پر خطاب کيا۔ آپ نے اخوت کے حوالے سے قرآن پاک کي متعدد آيات کي تلاوت کي۔ ان ميں سے چند ايک يہ ہيں۔
1. وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىO
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo
2. مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىO
تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo
آپ نے کہا کہ دو آدميوں اور دو افراد کو بھائي بھائي بن جانا اخوت ہے۔ جبکہ کامل لوگوں اور اہل اللہ کے ساتھ مل جانا صحبت ہے۔ آپ نے کہا کہ آقا عليہ السلام نے سفر ہجرت کيا تو قرآن نے اس کو يوں بيان کيا۔
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا.
جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
آپ نے لفظ اخوت کي تشريح کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے سفر ہجرت کے بعد انصار مدينہ کو بھائي بھائي بنا ديا۔ اس طرح مواخات کے بعد مدينہ پہلي اسلامي رياست بن گئي۔ آپ نے سورہ ال عمران کي آيت نمبر 103 تلاوت کي۔
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ اخوت انسان کے ٹوٹے دلوں کو جوڑ ديتي اور اخوت سے دشمنياں ختم ہوجاتي ہيں۔
آپ نے اخوت و بھائي چارے کو احاديث سے بھي بيان کيا۔ اس حوالے سے آپ نے کہا کہ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تقوي اور مخلوق سے حسن سلوک سب سے بڑھ کر انسانوں کو جنت ميں لے جانے والا ہوگا۔
امام احمد بن حنبل کي صحيح مسند ميں ہے۔ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا، اللہ تعاليٰ قيامت کے دن عرش کے اردگرد کرسياں لگوائيں گے، جو ان پر بيٹھيں گے تو ان کے چہرے چودہويں رات کے چاند کي طرح چمک رہے ہوں گے۔ اس کے برعکس دوسرے لوگ پريشان ہوں گے۔ وہ چيخ و پکار کر رہے ہوں گے اور خوف ميں ہوں گے ليکن ان اولياء اللہ پر کوئي خوف اور غم نہيں ہوگا۔ آقا عليہ السلام نے فرمايا کہ اللہ تعاليٰ فرمائيں گے کہ يہ اولياء دنيا ميں ميري محبت ميں ايک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ميں نے ان کو اس محبت کے صدقے اپنا ولی بنا ليا۔
آپ نے حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ سے مروي امام نسائي کي حديث کا حوالہ ديتے ہوئے کہا کہ آقا عليہ السلام نے فرمايا کہ عرش کے اردگرد نور کے منبر رکھيں جائيں گے۔ ان پر ايسے لوگوں کو بٹھايا جايا گا، جن کے چہرے بھي نور ہوں گے۔ ان کے لباس بھي نور ہوں گے۔ ليکن يہ لوگ نہ انبياء ہوں گے اور نہ شہداء ہوں گے۔ ان پر انبياء و شہداء بھي رشک کريں گے۔ انبياء اور شہداء کہيں گے کہ مولا ان کو اس مقام پر کيوں بٹھايا ہے۔ اس پر اللہ نے فرمايا کہ وہ ايک دوسرے سے اللہ کے ليے محبت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اور کوئي بنياد نہيں ہوگي۔ اس ليے ميں نے انہيں اس مقام پر بٹھايا۔ اللہ نے فرمايا کہ جو ميري خاطر ايک دوسرے سے ملاقات کرتے ہيں۔ ميں نے ان لوگوں کے ليے اپني محبت لازم کر لي ہے۔
اللہ تعالي نے قرآن ميں بھي فرمايا ہے کہ جو لوگ ميري خاطر محبت کرتے ہيں۔ ان سے محبت کرنا ميرے ذمہ کرم ميں واجب ہو گيا ہے۔ اس موقع پر انہتائي وجد ميں شيخ الاسلام نے مياں محمد بخش کے پنجابي شعر کا يہ مصرعہ پڑھا۔
جي کردا تينوں سامنے بٹھا کے درد پرانے چھيڑاں
اس موقع پر آپ نے گلو گير انداز ميں کہا کہ آپ نے کہا کہ مياں محمد بخش کے شعر کا يہ مصرعہ مجھے آج بھي بہت ياد آتا ہے۔ کيونکہ اب درد مندوں اور درد والوں کے زمانے گزر گئے ہيں۔ اب وہ رابعہ بصري کہاں سے آئے۔ اب وہ جنيد بغدادي، اويس قرني، وہ سري سقطي کہاں سے آئيں۔ شيخ الاسلام کي ان باتوں پر شہر اعتکاف کا ماحول بھي آبديدہ ہو گيا۔ يہاں آپ نے الحاج محمد علي ظہوري مرحوم و مغفور کو ياد کرتے ہوئے کہا کہ ميں ان سے يہ نعت "وچھڑے وي روہندے، ملندے وي روہندے تے روہندے ٹردے راہاں۔ " بڑي کثرت سے سنا کرتا تھا۔
شيخ الاسلام نے اس لمحے اپنے تحريک کے قائدين کو مخلصين اور محببين قرار ديتے ہوئے انہيں اخوت کي عملي تصوير قرار ديا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ميرے مشن کا انمول سرمايہ اور اخوت کي عملي تصوير ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انيس سو اسي کے اوائل زمانے سے ميرا ساتھ ديا اور آج تک استقامت اختيار کيے ہوئے ہيں۔ آپ نے کہا کہ انہوں نے اپني سنگت کو خالصتاً لوجہ اللہ اور اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ليے قائم کي۔
خطاب کے آخر ميں شيخ الاسلام نے اخوت کو اولياء اللہ کے واقعات سے بيان کيا۔ آپ نے کہا کہ اخوت محض دوسرے کو بھائي بنانے سے پوری نہيں ہو جاتي بلکہ صوفياء و اولياء فرماتے ہيں کہ ايسے لوگوں کو دوست بناؤ جو آپ کا ساتھ چھوڑ دينے کے بعد بھي آپ کو ياد رکھيں۔ آپ نے کہا کہ اللہ نے وعدہ کيا ہے کہ وہ قيامت کے دن اولياء کو نور کے منبروں پر بٹھائے گا۔ وہ اولياء اپنے محبت کرنے والوں کي اللہ کے حضور سفارش کر رہے ہوں گے اور وہ اپنے محبت کرنے والوں کو دوزخ سے نکال کرجنت کي طرف لے جا رہے ہيں۔ دوسري جانب اس وقت کفار اور مشرکين کف افسوس مل رہے ہوں گے کہ کاش ہم نے بھي کبھي ايسے لوگوں کي سنگت اختيار کي ہوتي، کاش ہم نے بھي دنيا ميں ايسے لوگوں کو اپنا دوست بنايا ہوتا۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ قرآن ميں اخوت کا يہ روحاني تصور ہے۔ اہل سلوک اور اہل اللہ نے اس کو اپنا طريق بنايا ہے۔ آپ نے کہا کہ وہ دوستي جو اللہ کے ليے اور اللہ کي محبت ميں قائم ہوتي ہے، اللہ رب العزت اس کا اتنا حياء فرماتا ہے کہ جب سارے جنت ميں چلے جائيں گے تو وہاں صرف اللہ کي خاطر ايک دوسرے سے محبت کرنے والے لوگوں کے ليے تخت لگيں گے، ايسے لوگوں کے ليے قالين بچھيں گے۔ اللہ انہيں فرمائے گا تختوں پر ٹيک لگا کر ايک دوسرے کے آمنے سامنے بيٹھو اور ايک دوسرے کو ديکھ کر مسکراتے جاؤ۔ ساتھ اللہ کا شکر بھي ادا کرو کہ اللہ نے انہيں نيک لوگوں کي سنگتيں دی تھيں۔
شہر اعتکاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ايم ايس پاکستاني
معاون: محمد نواز شريف
تبصرہ