تزکيہ نفس، فہم دين، توبہ اور آنسوؤں کي بستي "شہر اعتکاف" ميں تيسرے دن کا آغاز بھي ذکر و اذکار سے ہوا۔ معتکفين کي اکثريت گزشتہ شب رات گئے ختم ہونے والي محفل قرات و نعت ميں شب بيداري کي وجہ سے جاگ رہي تھي۔ مصفطوي سٹوڈنٹس موومنٹ کے زيراہتمام ہونے والي محفل قرات و نعت کا اختتام عالم اسلام کے شہرہ آفاق قاري کرامت علي نعيمي کي تلاوت و نعت سے ہوا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز ميں تلاوت قرآن سے شہراعتکاف کے ماحول کو سحر زدہ کر ديا۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز ميں نعت خواني بھي کي۔ محفل قرات و نعت ميں ملک بھر سے ديگر نعت خواں حضرات اور قراء نے بھي شرکت کي۔ ناظم اعليٰ ڈاکٹر رحيق احمد عباسي اور مصطفوي سٹوڈنٹس موومنٹ کے عہديداران سميت ديگر مرکزي قائدين نے شب بيداري کے اس پروگرام ميں شرکت کي۔
14 ستمبر 2009ء کو شيخ الاسلام کے خطاب کے ليے شرکاء ايک گھنٹہ پہلے ہي مسجد کے صحن ميں موجود تھے۔
خطاب شيخ الاسلام
شيخ الاسلام نے "خلوت" کے موضوع پر خطاب کيا۔ آپ نے کہا کہ امام ابو القاسم القشيري نے "رسالہ القشيريۃ" ميں بيان کيا ہے کہ خلوت کي ابتداء يہ ہے کہ انسان لوگوں سے ملنے جلنے اور اخلاط سے بچے۔ خلوت کي انتہاء يہ ہے کہ انسان اللہ سے محبت کا رشتہ اس قدر مضبوط کر لے کہ وہ لوگوں ميں بھي بيٹھے تو اللہ سے دور نہ ہو۔ جب انسان کو کسي سے محبت ہو جائے تو اسے تنہائي ميں بيٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ نے کہا کہ جب بندے کو اللہ سے پختگي نصيب ہو جائے تو پھر اس کي مجلس اور تنہائي ميں کوئي فرق نہيں رہتا۔ کيونکہ وہ انسان مقام تفرقہ سے نکل کر مقام جمع ميں چلا جاتا ہے۔ آپ نے کہا کہ امام ابوالقاسم قریوي فرماتے ہيں کہ خلوت کرنے کے ليے انسان کي نيت يہ ہو کہ ميں لوگوں کے شر سے بچنے کے ليے نہيں بلکہ اپنے شر سے لوگوں کو بچانے کے ليے خلوت ميں آيا ہوں۔ آپ نے کہا کہ انسان يہ خيال کرے کہ ميں اپنے نفس کے کتے سے لوگوں کو کاٹنے سے بچانے کے ليے خلوت نشيں ہوا ہوں۔ يہ سوچ ہوگئي تو اس سے انسان ميں تواضح پيدا ہو گي۔
آپ نے کہا کہ امام ابوالقاسم القشيري سے پوچھا گيا کہ عارف کون ہوتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ بظاہرجو شخص مخلوق کے ساتھ ہو ليکن اس کا باطن اور خلوت اللہ کے ساتھ ہو، وہي کامل عارف ہے۔ آپ نے کہا کہ خلوت کا مطلب يہ ہے کہ انسان کا رہن سہن، کھانا پينا تو مخلوق کے ساتھ رہے ليکن اس کا دل اللہ کي ياد ميں رہے۔
شيخ الاسلام نے مزيد کہا کہ خلوت سے انسان کے احوال سنورتے ہيں، جس سے انسان اپنے اخلاق بھي ٹھيک کر ليتا ہے۔ ليکن خلوت کے ليے خالص نيت اللہ کا قرب ہونا چاہيے۔ يہ نہيں سوچنا چاہيے کہ اس ليے اعتکاف بيٹھتا ہوں کہ ميرا فلاں کام ہو جائے۔ کام کرنا رب کا کام ہے، وہ اس سے غافل نہيں ہے۔ اس ليے اپني حاجات اور سب کام اللہ پر بھروسہ کر کے چھوڑ دينے چاہئیں۔
آپ نے کہا کہ حقيقي خلوت اس وقت نصيب ہوتي ہے جب بندہ خود مخلوق ميں ہو ليکن اس کا دل مخلوق سے کٹا رہے۔ خلوت اس وقت صحيح نہيں ہوتي اور دعائيں قبول نہيں ہوتيں جب تک رزق حلال نہ ہو او رزق اس وقت تک حلال نہيں ہوتا جب تک مخلوق سے آپ کے احوال اچھے نہيں ہوں گے۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ جس شخص کو تين چيزيں نصيب ہوں تو اس کي خلوت قبول ہو جائے گي۔ وہ تين چيزيں ہيں کہ انسان خلوت کو اپني صحبت بنا لے۔ بھوک کو اپنا کھانا بنا لے اور صرف پيٹ کو کھانے سے روکنا بھوک نہيں بلکہ نفس کو لذات سے روکے، اور اس کے ساتھ اللہ کي مناجات کو اپنا کلام بنا لے۔ پس جس نے ان تين چيزوں پر عمل کيا تو اس کو حقيقي خلوت مل گئي۔
شيخ الاسلام نے خلوت کو تابعين کے احوال سے بيان کيا۔ آپ نے کہا کہ امام حسن بصري کي خلوت کا يہ عالم تھا کہ ان کاکہنا ہے کہ "ميري صبح و شام تو اللہ کي نعمتوں کا شکر ادا کرنے ميں گزر جاتي ہے۔ " اس طرح حضرت اويس قرني رضي اللہ تعالي عنہ سے امام غزالي رحمۃ اللہ عليہ روايت کرتے ہے کہ 8 تابعين ايسے تھے جنہوں نے زہد و ورع، تقوي اور خلوت ميں سب سے بڑھ کر مجاہدہ کيا۔ اگر ان تابعين کے نام لکھ کر وسيلہ کر ديا جائے تو مريضوں کو شفاء ہو جاتي ہے۔
آپ نے کہا کہ حضرت اياز فرماتے ہيں کہ "ميں ديکھتا ہوں کہ جب رات چھا جاتي ہے تو ميرے ليے خوشي کا ساماں ہو جاتا ہے، کيونکہ اب ميں رات کے اندھيرے ميں رب کے ساتھ خلوت ميں باتيں کروں گا۔ جب رات گزر جاتي ہے تو ميري طبيعت خراب ہو جاتي ہے اور دل مغموم ہو جاتا ہے کہ اب دن کو پھر لوگوں سے ميل جول ہوگا۔ " شيخ الاسلام نے کہا کہ يہ وہ لوگ تھے کہ جن کي خلوت جلوت ميں بھي برقرار رہتي ہے۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ امام حسن بصري کے شاگرد حضرت ملا بن فيض رضي اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ "ان لوگوں کو مبارک ہو جن کو دنيا اور آخرت ميں عيش و آرام ملا۔ " ان سے پوچھا گيا کہ يہ کيسے ہو سکتا ہے۔ تو انہوں نے جواب ديا کہ "يہ وہ لوگ ہيں جو دنيا ميں اللہ کي مناجات ميں رہے۔ اور آخرت ميں بھي وہ اللہ کے قريب ہو گئے۔ انہيں اللہ کا قرب نصيب ہو گيا، يہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خلوت کا راستہ اپنايا۔ "
آپ نے کہا کہ خلوت کے ذريعے انسان چار برائيوں غيبت، چغلي، ريا اور اعمال خبيثہ سے دور رہتا ہے۔ شہر اعتکاف سے اس حقيقي خلوت کا آغاز ہے۔ جس نے شہراعتکاف ميں دس دن خلوت ميں لگا ليے تو خلوت اس کو اس قابل بنا ديتي ہے کہ وہ معاشرے ميں جا کر چغلي، غيبت، ريا کاري اور خبيث اعمال سے بچ سکتے ہیں۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ امام غزالي فرماتے ہيں کہ پہلے لوگ جب آپس ميں ملاقات کرتے تو ايک دوسرے کے احوال پوچھتے تھے۔ احوال آخرت، احوال غنيمت، احوال باطن کا پوچھتے تھے۔ ان کو اللہ کي محبت اور آخرت کي فکر ہوتي تھي۔ اس موقع پر آپ نے چند صاحب حال لوگوں کے احوال کو بھي بيان کيا۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ حضرت اويس قرني رضي اللہ عنہ سے کسي نے پوچھا کہ اويس کيا حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص سے کيا حال پوچھتے ہو جس کو اپني صبح و شام کا علم نہ ہو کہ کيسي ہوگي۔
حضرت مالک بن دينار سے کسي نے ان کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عمر کم ہوتي جا رہي ہے اور نامہ اعمال ميں خطائيں بڑھتي جا رہي ہيں۔
حضرت محمد بن باقر رضي اللہ عنہ سے کسي نے حال کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ميرا حال کيا پوچھتے ہو جب ميرا ہر قدم آخرت کے قريب جا رہا ہے اور آخرت کي تياري بھي نہيں ہے۔ آپ نے فرمايا کہ اس شخص کا حال اس مسافر جيسا ہے جو لمبے سفر ميں چل نکلے ليکن اس کے پاس زاد سفر نہيں ہے۔
حضرت حسان رضي اللہ عنہ سے پوچھا گيا کہ آپ کا حال کيسا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس شخص کا حال کيا ہوگا جس کو موت کے بعد کھڑا کيا جانا ہے۔
حضرت دردہ رضي اللہ عنہ سے کسي نے حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر ميں دوزخ کي آگ سے بچ گيا تو ميرا حال اچھا ہوگا۔
سيدنا عيسيٰ عليہ السلام سے حال پوچھا گيا تو انہوں نے کہا کہ اس شخص سے کيا حال پوچھتے ہو کہ جو شخص اپني موت کو بھي مؤخر نہيں کر سکتا۔
حضرت عبدالرحمن بن سلمي فرماتے ہيں کہ جو شخص يہ چاہے کہ اس کا جسم سلامت ہو جائے اور اس کے روح کو راحت مل جائے تو وہ خلوت اختيار کرے۔
حضرت ابو عثمان بيان کرتے ہيں کہ ان کو حضرت ابوبکر شبلي نے نصحيت کي، خلوت کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ ميں نے کہا کہ خلوت کيا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اپنے نام و نمود کي نمائش چھوڑ دے۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ آج ہماري زندگي ميں نام و نمود اور نمائش کے جھگڑے ہيں۔ ہم اپني زندگي ميں سوچتے ہيں کہ دين کے ليے کام تو ميں نے کيا ہے ليکن نام فلاں کا سامنے آ گيا ہے۔ لوگو! جس نے اللہ کے ليے کام کیا تو اس کا نام سامنے آئے يا نہ آئےا سے کوئي فرق نہيں پڑتا کيونکہ جس کے ليے اس نے کام کيا، اسے وہ ضرور جانتا ہے۔
آپ نے کہا کہ انسان دنيا ميں جو بھی نيکي کرے يا اچھا کام کرے ليکن کسي لالچ کے ليے کرے تو وہ دنيا ميں محض نمود و نمائش ہو گئي۔ قيامت کے دن اللہ پوچھيں گے کہ اے بندے ميرے ليے کيا عمل لائے ہو۔ بندہ کہے گا کہ مولا نماز کے ذريعے تيري عبادت کي ہے۔ اللہ فرمائيں گے کہ يہ تو نے دوزخ کے عذاب سے بچنے کے ليے کي تھي۔ ميرے ليے کيا لائےہو؟ اسی طرح اللہ تعاليٰ روزہ، حج، زکوۃ اور ديگراعمال صالح کے بارے ميں فرمائيں گے کہ اے بندے يہ سب تو نے جنت کے لالچ اور دوزخ سے نجات کے ليے کيے۔ ميرے ليے تم کيا لائے ہو؟ آخر ميں آپ نے کہا کہ خلوت انبياء کرام نے بھي اختيار کي۔ خلوت کے ليے حضرت موسيٰ عليہ السلام نے بھي دعا کي اور اللہ رب العزت نے حضرت موسيٰ عليہ السلام کو فرمايا، قرآن ميں ہے، کہ اے موسيٰ ہم نے آپ کي دعا قبول کر لي۔
جھلکياں
- نماز فجر کے بعد معتکفين نے شيخ الاسلام کےبتائے ہوئے اجتماعي وظائف کيے۔
- صبح نو سے دس بجے تک ايم ايس ايم کے "سٹوڈنٹس ليڈر شپ ٹريننگ پروگرام" ميں تنوير احمد خان نے "دعوت دين کے تقاضے" کے موضوع پر ليکچر ديا۔
- شيخ الاسلام کے خطاب سے پہلے ناظم اعليٰ ڈاکٹر رحيق احمد عباسي نے تربيتي بريفنگ دي۔
- شيخ الاسلام کا خطاب ڈيڑھ بجے ختم ہوا۔
- نماز ظہر کے بعد دو سے تين بجے تک پروفيسر محمد رفيق سيال نے "تحريک کے تحت چلنے والے تعليمي اور فلاحي ادارہ جات کي کارکردگي کو کيسے بہتر بنايا جا سکتا ہے" کے موضوع پر ليکچر ديا۔
- دوپہر تين سے ساڑھے تين بجے تک ناظم تربيت ڈاکٹر تنوير اعظم سندھو نے "تربيت کے آئندہ اہداف اور حکمت عملي"کے موضوع پر تنظيمي عہديداران کی تربيتي نشست سے خطاب کيا۔
- چار سے ساڑھے پانچ بجے تک معمول کے تربيتي حلقہ جات منعقد ہوئے۔
- نماز عصر کے بعد مفتي عبدالقيوم خان ہزاروي کي فقہي نشست منعقد ہوئي۔
- افطاري سے پہلے شہر اعتکاف کے تمام حلقہ جات ميں معتکفين نے حلقہ درود کے وظائف کيے۔
- نماز عشاء اور تراويح کے بعد مختصر محفل نعت منعقد ہوئي۔
(شہر اعتکاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ايم ايس پاکستاني)
معاون: محمد نواز شريف
تبصرہ