حرمين شريفين کے بعد دنيا کے سب سے بڑے شہر اعتکاف ميں دوسرے دن کا آغاز بھي تسبيحات، ذکر اذکار اور نماز تہجد سے ہوا۔ 22 رمضان المبارک کو پير کي صبح نماز فجر کے بعد معتکفين قدوۃ اولياء سيدنا طاہرعلاؤالدين القادري الگيلاني رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر دور سے حاضري کے ليے دعا مانگ رہے تھے۔ دوسري طرف نفلي معتکفين کي بڑي تعداد مزار مبارک پر بھي حاضري کے ليے موجود تھي۔ نماز چاشت اور اشراق کے بعد صبح دس بجے سے ہي مسجد کا حال شرکاء سے بھر چکا تھا۔ شہر اعتکاف کے دوسرے دن بھي شيخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادري نے "خلوت" کے موضوع پر خطاب کيا۔
خطاب شيخ الاسلام
شيخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادري نے اپنے خطاب کا آغاز سورۃ مريم کي 16 نمبر آيت مبارکہ کی تلاوت سے کیا۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO
اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم (علیہا السلام) کا ذکر کیجئے، جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لئے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیںo
آپ نے خلوت کے موضوع پر مختلف قرآني آيات کے بعد احاديث مبارکہ بھي بيان کيں۔ ايک حديث مبارکہ کا حوالہ ديتے ہوئے آپ نے کہا کہ "زبان کو کنٹرول کرنے والوں کو جنت کا صلہ ملے گا"
اس کے بعد شيخ الاسلام نے خلوت اور خاموشي کے حوالے سے امام غزالي رحمۃ اللہ عليہ کي کتاب احياء العلوم سے " زبان کے خرافات" بيان کيے۔ آپ نے کہا زبان انسان کي سب سے بڑي دشمن ہے۔ جس نے زبان کو کنٹرول کر ليا تو وہ فلاح پا گيا۔ شيخ الاسلام نے کہا کہ کثرت گفتگو حسن کلام کے خلاف ہے۔ اسلام کا حسن يہ ہے کہ بے مقصد چيزوں کو چھوڑ ديا جائے، کيونکہ انسان کي خطاؤں کي جڑ اس کي زبان ہے۔ آپ نے کہا کہ ہماري روز مرہ زندگي ميں زبان کے بے وقت اور غلط استعمال کي وجہ سے ہي لوگوں ميں لڑائي جھگڑے ہوتے ہيں۔ اس ليے ہميں اپني زبان ميں حياء، محبت، پيار، اخوت، رواداري، اخلاص اور حسن اخلاق پيدا کرنا ہو گا۔ اگر ہم اپني زبان کو کنٹرول کر ليں تو ہم دوسروں کے ليے رحمت بن جائيں گے۔
شيخ الاسلام نے خاموشي کے فوائد بتاتے ہوئے کہا کہ قلت کلام سے انسان کے رزق ميں اضافہ ہوتا ہے جبکہ کثرت کلام سے رزق ميں کمي واقع ہو جاتي ہے۔ آپ نے کہا کہ جب انسان کثرت کلام کرتا ہے تو اس ميں غيبت اور چغلي بھي داخل ہو جاتي ہے۔ اور ہميں شايد يہ معلوم نہيں ہے کہ غيبت بدکاري سے بھي بڑا گناہ ہے۔ بدکاري کي توبہ ہے ليکن دوسرے انسان کي غيبت کرنے کي معافي اس وقت تک نہيں ہے جب تک وہ شخص خود معاف نہيں کر ديتا۔
خوشامد کے حوالے سے شيخ الاسلام نے کہا کہ اسلام نے خوش آمد کي بھي مذمت کي ہے۔ آپ نے کہا کہ عام حالات ميں خوشامد تو دور کي بات، حکمرانوں کي مدح سرائي کرنا بھي حرام ہے۔ آپ نے حديث مبارکہ بيان کرتے ہوئے کہا کہ آقا عليہ السلام نے فرمايا کہ جو کسي کي مدح سرائي کرے، اس کے منہ ميں مٹي ڈالو۔
اپنے خطاب کے آخري حصہ ميں شيخ الاسلام نے انبياء کرام علیہم السلام کي بکرياں چرانے کي حکمت کو بيان کيا۔ اس حوالے سے آپ نے کہا کہ جتنے بھي انبياء کرام دنيا ميں مبعوث کيے گئے تو ان سب کے استاد اور مربي اللہ تعاليٰ خود ہيں۔ اللہ تعالي نے انبياء کرام کو بکرياں چرانے کا کام کيوں ديا؟، اس ميں بھی حکمت ہے، وہ يہ کہ بکرياں چرانے سے انسان ميں صبر و تحمل پيدا ہوتا ہے۔ بکرياں چرتے چرتے ادھر ادھر بھاگ جاتي ہيں۔ چرواہا ان کو ڈنڈا دکھاتا تو ہے ليکن مارتا نہيں۔ کيونکہ اگر مار دے گا تو اس کے مال کا نقصان ہوگا۔
بس چرواہا صرف ڈنڈا دکھا کر بکريوں کو بار بار اکٹھا کرتا ہے۔ اس ميں حکمت يہ ہے کہ نبي بھي پيار سے اپني مخلوق کو جنت کي طرف اکٹھا کرتا ہے۔ ان پر سختي نہيں کرتا کيونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس نے سختي کي تو وہ اس کي مجلس سے بھاگ جائيں گے۔ اس ليے نبي کي دعوت کو اگر سو بار بھی ٹھکرايا جائےتو وہ بار بار دعوت حق ديتے رہتے ہیں۔
شيخ الاسلام نے کہا کہ بکريوں کو چرانے سے اللہ تعاليٰ نے انبياء کرام کو شفقت سکھائي ہے۔ چرواہا طاقتور ہوتا ہے ليکن بکرياں کمزور ہيں، وہ طاقت رکھ کر بھي ان پر سختي نہيں کرتا۔ اس ميں حکمت يہ ہے کہ نبي نافرماني پر سب کچھ کرنے کي طاقت بھي رکھتا ہے ليکن اس کے باوجود ايسا نہيں کرتا۔ آپ نے کہا کہ ريورڈ ميں شامل ہر بکري کي طبعيت الگ الگ ہوتي ہے۔ يہي امت ميں ہے کہ ہرقبيلے کے لوگوں کا حال ہوتا ہے۔ جن کي طبائع الگ الگ ہيں، سخت دل لوگ بھي ہوتے ہيں اور کمزور دل لوگ بھي۔ اس طرح ظالم اور نافرمان لوگ بھي امت ميں ہوتے ہيں جبکہ نيک دل اور رحم دل بھي ہوتے ہيں۔ ليکن نبي سب کو حکمت کے ساتھ درس ديتے ہيں۔ يہ نبي کي تربيت ہوتي ہے جو اللہ تعاليٰ بکریوں کے چرانے والے پراسیس سے گزار کر دیتا ہے۔ ليکن اللہ تعاليٰ انبياء کرام کو يہ بکرياں چرانے کي ٹريننگ نوجواني کے زمانہ ميں عنایت کرتا ہے، اعلان نبوت سے پہلے ديتا ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ خواہ وہ نوجواني ميں بکريوں کو جمع کرے يا اعلان نبوت کے بعد انسانيت کو جمع کرے۔ يہ سب اس کي عملي تربيت کا حصہ ہے۔
آخر ميں شيخ الاسلام نے کہا کہ معتفکين و معتکفات يہ جان لو کہ آپ يہاں دس دن کے مسنون اعتکاف ميں آئے ہو۔ آپ کو معلوم ہونا چاہيے کہ جب تک بندہ لوگوں سے الگ نہيں ہوتا تو اس وقت تک اسے قرب الٰہي نہيں ملتا۔ آپ نے کہا کہ معاشرے ميں انسان کماتا ہے جو خرچ ہو جاتا ہے ليکن اعتکاف ميں نيکيوں کي کمائي ايسي ہے جو خرچ نہيں ہوتي۔ آپ نے کہا کہ ميں تحريک کے رفقاء و کارکنان سے درخواست کروں گا کہ اگر ہو سکے تو ہر چھے ماہ کے بعد کم از کم تين دن کا اعتکاف کيا کريں۔ اور اگر اس سے زائد ممکن ہو تو ہر تين ماہ کے بعد تين دن اللہ کے حضور مہمان بن کرمعتکف ہو جائيں۔ اس طرح آپ دس دن سالانہ اعتکاف اور دس دن گوشہ درود ميں لگائيں۔ يہ آپ کي وہ کمائي ہو گي جو خرچ نہيں ہوگي بلکہ اس ميں بچت ہي بچت اور يہي آپ کي آخرت ميں نجاب کا باعث بنے گي۔
جھلکياں
1۔ مصطفوي سٹوڈنٹس موومنٹ کے زيراہتمام صبح نو بجے سے دس بجے کے دوران ملک بھر سے يونيورسٹيز و کالجز کے معتکفين طلبہ کے ليے سٹوڈنٹس ليڈر شپ ٹريننگ پروگرام منعقد ہوا جس ميں حنيف خان مصطفوي نے "انقلاب ميں طلبہ کا کردار" کے موضوع پر ليکچر ديا۔
2۔ شيخ الاسلام کا خطاب گيارہ بجے شروع ہوا جبکہ دس بجے ہي پنڈال شرکاء سے بھر چکا تھا۔
3۔ شيخ الاسلام کے خطاب سے پہلے ناظم اعليٰ ڈاکٹر رحيق احمد عباسي نے تربيتي امور پر بريفنگ دي۔
4۔ شيخ الاسلام نے خطاب کے آغاز ميں مختلف وظائف بتائے اور ان پر عمل کرنے کي تلقين کي۔
5۔ نماز ظہر کے بعد ناظم اعليٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے شيخ الاسلام کي نئي کتب کا تعارف پيش کيا۔
6۔ نماز ظہر کے بعد دو سے تين بجے کے دوران ساجد محمود بھٹي نے "تنظيمي نيٹ ورک ميں توسيع اور استحکام کيونکر ممکن ہے" کے موضوع پر ليکچر ديا۔
7۔ دوسري جانب دوپہر تين سے ساڑھے تين بجے تک "مشن کي پروجيکشن کے ليے جديد ٹيکنالوجي اور ميڈيا کي مؤثريت" کے موضوع پر سردار منصور احمد خان کي تربيتي نشست ہوئي۔
8۔ نماز عصر کے بعد مفتي عبدالقيوم خان ہزاروي کي فقہي نشست ہوئي۔
9۔ ساڑھے چھے سے سوا سات بجے تک انفرادي و اجتماعي حلقہ درود منعقد ہوئے جبکہ معتکفين نے انفرادي طور پر وظائف بھي کيے۔
10۔ شہر اعتکاف ميں آغوش کي نئي بلڈنگ کا بھي اضافہ ہوا ہے جس ميں معتکفين کے ليے بہترين سہوليات موجود ہيں۔
11۔ آغوش کي نئي بلڈنگ ميں بيسمنٹ اور گراؤنڈ فلور پر معتکفين کي بہت بڑي تعداد مقیم ہے۔
12۔ جامع المنہاج کے صحن کے سامنے دربار غوثيہ کے لنگر خانہ کي عمارت ميں سيل سنٹر کا سٹال لگايا گیا۔
13۔ سيکورٹي خدشات کي وجہ سے معتکفين کي سہولت کے ليے منہاج ماڈل سکول کي عمارت کي چھت پر سٹالز لگائے گئے ہيں۔
14۔ مسجد کے صحن ميں گرمي کي مناسبت سے پيڈسٹل فين لگائے ہيں جبکہ ہر بلاک ميں ٹھنڈے پاني کے ليے بڑے بڑے کولر بھي موجود ہيں۔
15۔ نماز عشاء و تروايح کے بعد محفل ذکر و نعت ہوئی جو رات گئے تک جاري رہي۔
شہر اعتکاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ايم ايس پاکستاني)
معاون: محمد نواز شريف
تبصرہ