شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کا شہر اعتکاف میں ہزاروں معتکفین سے پانچویں نشست میں "عشق و محبتِ اِلٰہی کے اَحوال" کے موضوع پر فکر انگیز خطاب
انہوں نے کہا کہ جو لوگ اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے محنت اور معاونت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی توفیقات میں اضافہ کرے اور ان کی حفاظت فرمائے۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ فتنوں کا دور ہے۔ ٹی وی کھولو تو فسق و فجور، سیل فون کھولو تو فسق و فجور، سکول و کالجز میں جاؤ تو تعلیم کے علاوہ دوستوں کے ساتھ فسق و فجور، فحاشی، عریانی، بےحیائی، نیک اقدار کا خاتمہ—ہر طرف حرام کاری اور حرام خوری عام ہو چکی ہے۔ حلال و حرام کا فرق مٹ گیا ہے، حسد اور بغض نے دلوں میں گھر کر لیا ہے، ایک دوسرے پر تہمت کا بازار گرم ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں جہنم کا اثر آ گیا ہے، یا شاید ہم اسی دنیا میں جہنم میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ اس جہنم میں ایک جنت بنا کر رکھی جائے۔
انہوں نے کہا کہ لادینیت اور اللہ کے وجود سے انکار کے فتنے کو کچلنا، اللہ کے ساتھ ٹوٹے رشتہ کو جوڑنا، متصل کرنا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جوڑنا۔ بدی کے دور میں نیکی سکھانا، کفر کے دور میں توحید سکھانا، اور ایسے ماحول میں نوجوان نسلوں کے اخلاق کو بچانا، ایک عظیم عمل ہے۔ نیکی کے اس عمل میں شامل ہر شخص مبارک باد کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد، گھر، ماں باپ، بیویوں اور مال سے محبت کرنے سے منع نہیں کیا، مگر ان تمام محبتوں کی ایک حد مقرر کی ہے۔ ان سب محبتوں کے اوپر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہونی چاہیے، تاکہ دنیاوی تعلقات ایمان کی روشنی میں متوازن رہیں اور اللہ کی رضا مقدم رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کی راہ میں جو بھی کام کیا جاتا ہے، خواہ وہ اللہ کی رضا کو پانے کے لیے ہو یا اللہ کے دین کا پیغام پہنچانے کے لیے، وہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اصل مقصد اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت اور اللہ کے احکامات کو دنیا تک پہنچانا ہے۔ اگر اللہ کی محبت پر دنیا کی دیگر محبتیں غالب آجائیں تو نظامِ زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ایسی غفلت پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، اور نافرمانیوں کے نتیجے میں ایسا عذاب آتا ہے کہ پھر کسی کا کچھ نہیں بچتا۔ لوگ ذلت و رسوائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم سب کے حالات تو نہیں بدل سکتے، مگر اپنے آپ کو ضرور بدل سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے اندر انقلاب لے آئیں تو اس راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔ آپ کے باطن میں بھی ایک دنیا آباد ہے، اس میں تو آپ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ دل میں جو خواہشیں ہیں، ان پر قابو پائیں، اپنے نفس کے اندر انقلاب برپا کریں۔ جو محنت اور مشقت باہر کرنی ہے، پہلے وہ اپنے دل اور باطن میں کریں۔ یاد رکھیں! اس انقلاب کی بنیاد عشقِ الٰہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اللہ کو بھول چکے ہیں، اگر کل قیامت کے دن اللہ نے ہمیں بھلا دیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ کیا ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کے عشق کی حرارت محسوس کرتے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہمارا دل اللہ کے ذکر اور اس کی محبت سے سرشار ہو۔ جب بندہ اللہ کے لیے اپنی خواہشات کو کچل دیتا ہے اور اپنی ذات کو ذاتِ حق کے سامنے فنا کر دیتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ محبت محض زبانی دعوے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل و سینے میں محسوس ہونی چاہیے، زاویۂ عمل، کردار اور افکار میں جھلکنی چاہیے۔ محبت صرف دکھاوے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اثر زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہونا چاہیے۔
تبصرہ