شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کا شہرِ اعتکاف 2025ء کی چوتھی نشست سے "معانیِ محبت اور مراتبِ عشق" کے موضوع پر ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب
انہوں نے کہا کہ اگر طبیعت میں علم کا دعویٰ آنے لگے تو سمجھیں کہ شیطان کا حملہ کارگر ہو گیا۔ علمیت کے دعوؤں سے تکبر پیدا ہوتا ہے، اور تکبر نفرت و انتشار کو جنم دیتا ہے۔ سفرِ ایمان کی ابتدا محبت، عاجزی اور انکساری سے ہوتی ہے۔ محبت کی کیفیات سے انکار کرنے والے گویا سفرِ ایمان کی ابتدا سے محروم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ احیاء العلوم میں امام غزالی فرماتے ہیں کہ اللہ کی محبت تمام مقامات کی آخری منزل اور سفرِ ایمان کے درجوں کا آخری درجہ ہے۔ جس دل میں دنیا کی محبت ہو، اس دل میں اللہ کی محبت داخل نہیں ہوتی۔ جسے محبت نہیں ملی، اس کا دل مریض ہے۔ دل میں محبت و شفقت کے جذبات جتنے کم ہوں گے، ایمان کا درجہ اتنا ہی کم ہوگا۔ محبت ایمان کی حیات اور زندگی ہے۔ محبت کی کیفیات سے محروم شخص زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہے۔ مالکِ حقیقی سے محبت دل کو سکون دیتی ہے، جبکہ دنیا کی محبتیں اضطراب اور جنون پیدا کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ سراپا محبت و شفقت ہیں۔ آپ کو رحمتُ للعالمین کا مقام عطا ہوا۔ آپ ﷺ اس قدر شفیق اور مہربان تھے کہ جس نے بھی ایک بار چہرۂ انور پر نگاہ ڈالی، وہ فریفتہ ہو گیا۔ دین کو محبت، شفقت اور جانثاری کی کیفیات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہم علم کے دعوے دار ہو کر بھی کھوکھلے اس لیے ہیں کہ ہمارے دل محبت سے خالی ہیں۔ ہم نہ کسی کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی کسی کو برداشت کرنے کے لیے۔ یہ نہ علم والوں کا مزاج ہے اور نہ ہی اللہ کے بندوں کا طریقہ۔ اسلام فلسفے کا نام نہیں، بلکہ محبت و شفقت کا نام ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان، بالخصوص مبلغین، علمائے کرام اور واعظین، انسانیت سے پیار کرنا سیکھیں۔ لوگوں کو اپنے سے دور کرنے کے بجائے قریب کریں۔ یہ قربت علم کے رعب یا فلسفہ و منطق کی موشگافیوں سے نہیں، بلکہ محبت کے بے لوث جذبے کے اظہار سے قائم ہوگی۔
تبصرہ