صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شہرِ اعتکاف کے تیسرے روز "آدابِ زندگی" کے موضوع پر دوسری تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی بھی عمل کی تکمیل سے پہلے علم کا ہونا لازم ہے۔ جب علم کی سمت درست ہو جائے گی تو دیگر تمام معاملات خود بخود درست ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی بنیاد دیگر تہذیبوں کی طرح نسل، زبان، قبیلے یا علاقے پر نہیں بلکہ علم اور تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور جو شخص ان دونوں میں بلند مرتبہ حاصل کر لیتا ہے، وہی حقیقت میں بڑا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے قرآن و حدیث کی روشنی میں علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: جسے قرآن و حدیث کا علم عطا کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اسے غنی کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص حصولِ علم کے لیے نکلتا ہے، وہ اس وقت تک اللہ کی راہ میں ہوتا ہے جب تک وہ واپس نہیں لوٹتا۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ اسلام میں عزت و فضیلت کا معیار علم اور تقویٰ ہے، نہ کہ مادی رتبے یا خاندانی وراثت پر۔ اگر کوئی غریب گھرانے میں پیدا ہو کر بھی علم میں بڑا ہو تو وہی اسلامی معاشرے میں برتری کا حق دار ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے سیدنا انس بن مالک جیسے درویش مزاج صحابی کو امامت عطا فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں قیادت کا معیار علم اور تقویٰ ہے، نہ کہ خاندانی وراثت یا مادی دولت پر۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ احساسِ کمتری کسی مسلمان میں نہیں ہونی چاہیے۔ علم رکھنے والا شخص نہ تکبر میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ ہی احساسِ کمتری کا شکار ہوتا ہے۔ جو علم اور تقویٰ میں بڑا ہے، وہی حقیقت میں عظیم ہے۔ نسب کا فائدہ بھی تبھی ہوتا ہے جب اعمال بھی صالح ہوں اور نسب بھی برکت والا ہو۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اہلِ علم کے اَدب پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جہاں علم کا اَدب ہوگا، وہاں عالمِ دین کا بھی اَدب ہوگا۔ جو چیز سیکھی جا رہی ہو، اس کا بھی اَدب ضروری ہے اور سیکھانے والے استاد کا بھی احترام لازم ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں، کیونکہ خشیتِ الہی کا نور علم سے پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے سالکین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ طلبِ علم میں ہمیشہ نیت کو خالص رکھو۔ اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ درویش علم کو ذریعہ معاش نہیں بناتا اور نہ ہی دنیاوی منفعت کے لیے اپنے علم کو فروخت کرتا ہے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جس نے دین کو ذریعہ معاش بنایا، اس نے درحقیقت لعنت کمائی۔
آخر میں انہوں نے شرکاء کو تلقین کی کہ حصولِ علم کا ادب یہی ہے کہ جو کچھ سیکھو، اس پر عمل کرو۔ اگر طبیعت میں علم کا دعویٰ آنے لگے تو سمجھو کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے، کیونکہ علم کا دعویٰ تکبر پیدا کرتا ہے اور تکبر درویش کے لیے زہر قاتل ہے۔ درویش اپنی اصلاح میں ہمیشہ متوجہ رہتا ہے اور جب بھی نصیحت کی جاتی ہے تو فوراً اپنے باطن میں جھانکتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو درست کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو طلبِ علم میں اخلاص رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ درویش کی ابتداء عام عالم کی انتہا ہوتی ہے کیونکہ درویش صرف علم حاصل نہیں کرتا بلکہ اس پر عمل کرکے اسے اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے۔ علم وہی معتبر ہے جو عمل کے قالب میں ڈھل جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علم کے نور سے منور فرمائے اور اسے ہمارے لیے ذریعہ نجات بنائے۔ آمین!
حاضرینِ گرامی یہ چند آداب تھے جو معلم،متعلم اور سالکین کے لیے حصولِ علم کی راہ کے لیے ضروری ہیں۔
تبصرہ