شہر اعتکاف 2025: شیخ الاسلام کے خطابات کا موضوع ’’عشقِ الہٰی اور لذتِ توحید‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے امسال پہلی بار معتکفین و معتکفات کو اعتکاف 2025ء میں شرکت کی دعوت دی ہے اور اعلان فرمایا ہے کہ اس سال شہر اعتکاف میں خطابات کا موضوع ’’عشقِ الٰہی اور لذتِ توحید‘‘ ہو گا۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ہر سال قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاو الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کے مزارِ اقدس کے زیر سایہ جامع المنہاج بغداد ٹاؤن، ٹاؤن شپ لاہور میں شہرِ اعتکاف سجتا ہے۔ ہر سال پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے معتکفین و معتکفات شریک ہوتے، قلوب و اذہان کو ایمان و یقین کی روشنی سے منور کرتے ہیں اور اعتکاف کی برکتیں سمیٹتے ہیں۔ یہ شہرِاعتکاف ایک عظیم الشان علمی، روحانی، تعلیمی و تربیتی درس گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں عبادات کا نور، ذکرِ الٰہی کا سرور، تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کا جامِ طہور میسر آتا ہے۔ شیخ الاسلام نے دعوتِ عام میں فرمایا کہ اپنی زندگی میں پہلی بار اپنی زبان سے آپ لوگوں کو اعتکاف کا حصہ بننے کی دعوت دے رہا ہوں۔ گزشتہ اعتکاف کے موقع پر عقل اور شعور کے پیمانوں پر وجودِ باری تعالیٰ پر بات ہوئی تھی، اس سال عشق اور دل کے پیمانے سے ذاتِ حق کی بات ہو گی ۔پچھلے سال آگہی کی باتیں تھیں اس سال شناسائی، شیفتگی اور وارفتگی کی باتیں ہوں گی اور میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں خواہ ان کا تعلق ہائی سکول سے ہے یا کالجز سے یا یونیورسٹی سے وہ اس سال شہر اعتکاف کی رجسٹریشن ضرور حاصل کریں۔

Itikaf 2025 by Minhaj ul Quran International

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ ہر شب نماز تراویح کے بعد خطابات فرمائیں گے۔ بلاشبہ حرمین شریفین کے بعد اسلامی دنیا کا یہ سب سے بڑا شہرِ اعتکاف ہے۔ شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام کے خطابات مخزنِ علوم و فنون ہیں۔ علم و حکمت کی یہ صدائیں قِرطاسِ ابیض کے سینے پر محفوظ ہوتی چلی جارہی ہیں۔ اعتکاف 2024ء کا موضوع ’’خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں‘‘ تھا۔

شیخ الاسلام نے اپنے خطابات کی اس سیریز کے ذریعے خدا کے وجود کی نفی کرنے اورسائنس اور اسلام کو مقابل کھڑا کرنے والوں کے نیم خواندہ بیانیہ کو ادھیڑ کے رکھ دیا تھا اور ایمان افروز بیان اور عقلی دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا تھا کہ ہر وہ فلاسفر جو بہ ظاہر اللہ کے وجود کی نفی کرتا ہے، وہ بالآخر وجودِ حق کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوا۔ سائنس اسلام کی ضد نہیں بلکہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قرآنی حقائق و معارف کی توثیق کرتی چلی جارہی ہے۔ فرعون کے ڈوب کر مرنے کی حقیقت ہو یا بگ بینگ تھیوری، بچے کے تخلیقی مراحل ہوں یا پہاڑوں کا زیرِ زمین میخوں کی طرح گڑا ہونا، کائنات کا پھیلاؤ اور سکڑاؤ، نظام شمسی کا ایک نظم کے ساتھ قائم ہونا اور ستاروں اور سیاروں کا مقررہ راستوں پر محوِ سفر رہنا، یہ وہ تمام سائنسی حقائق ہیں جن کے انکشافات کی عمر اڑھائی یا تین سو سال سے زیادہ نہیں ہے مگر اللہ رب العزت نے 14سو سال قبل پیغمبرِ حق حضور نبی اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس پر یہ حقائق جاری فرما دئیے جو کرۂ ارض کی سب سے سچی کتاب قرآن مجید کے سینے میں محفوظ ہیں۔

شیخ الاسلام کے ان عظیم الشان خطابات کے ایک ایک حرف نے اُمت کے نوجوانوں کو فتنۂ دہریت اور لادینیت کی یلغار سے بچانے کے لئے نسخۂ اکسیر کا کام کیا۔ نوجوانوں کو اسلام اور خدا کے وجود سے برگشتہ کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر لادینیت اور دہریت پھیلائی جارہی تھی، ہر طرف سکوتِ مرگ تھا اور کوئی اس فتنہ کا منہ توڑ جواب نہیں دے رہا تھا۔

شیخ الاسلام نے اپنی دینی و ملی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اس فتنے کے سامنے بند باندھا اور قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ آئندہ نسلوں کے ایمان و اعتقاد کی حفاظت کی۔ شیخ الاسلام نے خدا کے وجود کی نفی کرنے والے ذہنوں سے ایک سوال کیا کہ سائنسدانوں نے ایٹم اور اُس کے منقسم ذروں نیوٹران، الیکٹران اور پروٹون کو نہیں دیکھا مگر دیکھے بغیر وہ ان کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں حالانکہ ابھی کوئی ایسی خوردبین ایجاد نہیں ہوئی جو ان ذرات کو دیکھ سکے مگر جب خدا کے وجود کی بات ہوتی ہے تو ثبوت مانگا جاتا ہے جبکہ قرآن مجید کے اندر موجود سائنسی انکشافات کی بھرمار وجودِ باری تعالیٰ کا ناقابل تردید ثبوت ہیں مگر یہاں عقل و خرد تعجب اور لاعلمی کی گرد میں اٹ کررہ جاتی ہے۔

شیخ الاسلام نے وجود باری تعالیٰ کے منکرین کے سامنے ایک اہم سوال رکھا کہ انسان کا سارا علم حواسِ خمسہ کا مرہونِ منت ہے، یہ حواس جو دیکھتے، سنتے، چکھتے، چھوتے اور سونگھتے ہیں پھر ان کے سگنل دماغ کو پہنچا دیتے ہیں اور پھر دماغ ان کی تاثیر اور اثرات کے بارے میں حکمنامہ جاری کرتا ہے یعنی دماغ ازخود کسی تاثیر کا نتیجہ اخذ نہیں کرتا، وہ حواس خمسہ کے سگنل کا مرہون منت ہے جبکہ اللہ کی ذات حواسِ خمسہ کے علم سے بالاتر ہے لہٰذا وجودِ باری تعالیٰ کے حوالے سے دماغ کی ٹامک ٹوئیوں پر انحصار کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیاں اللہ تک رسائی اور شناسائی کا ذریعہ ہیں۔ یہاں ایمان بالغیب کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنے حالیہ اعلان میں فرمایا کہ گزشتہ سال کے خطابات میں عقل کے پیمانے بروئے کار لائے گئے تھے، اس بار دل کے پیمانے سے وجودِ حق کی بات ہو گی۔ شیخ الاسلام نے گزشتہ عالمی میلاد کانفرنس میں ایک اعلان فرمایا تھا کہ اُن کی بقیہ زندگی اَدب اوراَخلاق و کردار کی تحقیق و جستجو کے لئے وقف ہے۔ بلاشبہ اَدب اور اَخلاق و کردار کی گراوٹ کی وجہ سے ہمارے ایمان و یقین پر کاری ضربیں لگ رہی ہیں۔ اس علمی اور تربیتی خلاکو پُر کرنے کے لئے امسال شیخ الاسلام نے ’’عشقِ الٰہی اور لذتِ توحید‘‘ کا موضوع منتخب کیا ہے۔ توحید ایمان کی عمارت کی بنیاد اور خشتِ اول ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کے اُن بنیادی عقائد میں سے ہے جن پر ایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندہ یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ عقیدے کے ساتھ ساتھ کیفیت اور حال کا معاملہ ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے، یہ ایک ایسی لذت آشنائی ہے جو انسان کو دو عالم کے خوف و غم سے بے نیاز کر کے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔

ضرورت اس اَمر کی تھی کہ معاصر علمی حلقے اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرزِ فکر کے ساتھ اُمہ کے نوجوانوں اور آئندہ نسلوں کی راہ نمائی کرتے اور اُنہیں بدعقیدگی اور اعتقادی فتنوں سے بچاتے مگر فروعی اختلافات کو اتنا زیادہ نمایاں کر دیا گیا کہ عقیدۂ توحید و رسالت کے باب میں
 شکوک و شبہات پیدا کر کے ایمان و یقین کو کمزور کیا جانے لگا۔ اس اہم اعتقادی اور علمی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اور اُمت کے نوجوانوں کو بدعقیدگی سے بچانے کے لئے شیخ الاسلام نے عشق و مستی میں ڈوبا ہوا یہ موضوع منتخب کیا ہے۔

یقیناً یہ خطابات سُننے والوں کی ایمانی زندگی میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کریں گے۔ منہاج القرآن کی دعوتی، تربیتی مساعی اور عبادت و ریاضت کے لئے شہر اعتکاف میں جہاں مردو ں کے لئے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے وہاں شرعی پردہ کے ساتھ خواتین کے لئے بھی تدریس و تفہیمِ دین کا بطورِ خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلامیانِ پاکستان کو شہرِ اعتکاف 2025ء میں شرکت کی دعوتِ عام ہے۔ محدود جگہ کے باعث پیشگی رجسٹریشن کروا لی جائے۔ اللہ رب العزت ہمیں دین سیکھنے، سکھانے اور اَحوال سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن - مارچ 2025

تبصرہ