تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کی 9ویں شب، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہزاروں معتکفین و معتکفات سے "دین اور ادب" کے موضوع پر ایمان افروز گفتگو
انہوں نے کہا کہ جس شخص نے اپنے نفس کو برائیوں کے غلبے سے پاک کرلیا اور نیکی کے جذبہ کو غالب کر لیا تو وہ شخص کامیاب ہوگیا۔ جس نے اس نفس کو گناہوں میں ملوث کردیا اور نیکی کو دبا دیا، وہ شخص نامراد و ناکام ہوگیا۔ خُلق کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے اندر پائی جانے والی عمدگی، اچھائی اور خوبصورتی کو اندر سے باہر نکالنا تاکہ وہ چھپی اور دبی ہوئی صلاحیت نہ رہے بلکہ باہر نکل کر فطرت بالفعل (actual nature) بن جائے۔ اگر آپ کے افعال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اَوامر و اَحکام (commandments) کے تابع ہو جائیں تو وہ فعل عملِ صالح بن جاتا ہے۔ اور آپ جو بھی عملِ صالح کر رہے ہوں اسے نہایت عمدہ اور خوبصورت لباس پہنا دیں تو وہ ادب بن جاتا ہے۔ کسی کو اُس کے حق یا ضرورت سے زیادہ دینے کے عمل میں ناگواری کا نہ ہونا خُلقِ حسن اور ادبِ حسن کا طریق ہے۔ ہمارا پورا دین ادب سے لبریز ہے، جو بے ادب ہے گویا وہ بے دین ہے۔ اللہ تعالیٰ، اُس کے رسولﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اہل بیت علیھم السلام، بزرگانِ دین اور ہر مخلوق کے ساتھ معاملہ کا اہنا اپنا ادب ہے۔ افسوس! ہمارا تصور دین اور تصور زندگی ادب کے پورے تصور سے خالی ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت کو بارگاہِ رسالتﷺ کا ادب سکھایا اور بارگاہِ رسالت ﷺ کے ادب کو اپنا ادب قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ اور آپ سے متعلق ہر چیز کا ادب ہم پر لازم ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ ظاہری حیات سے پردہ فرمانے کے باوجود زندہ ہیں۔ حدیث صحیح ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری روح لوٹا دی ہوئی ہے، میں اس سلام بھیجنے والے کو سلام کا جواب دیتا ہوں۔ انبیاء کرام علیھم السلام بارگاہِ الٰہی کا ادب یوں بجا لاتے کہ بیماری یا کمزوری کی نسبت اپنی طرف کرتے، جب کہ شفاء یابی اور اپنی کامیابی کو اللہ کی طرف منسوب کرتے۔ حضرت موسی و خضر علیہما السلام کی ملاقات میں کشتی میں سوراخ کی نسبت حضرت خضر علیہ السلام نے اپنی طرف کی، جب کہ خزانے کی حفاظت کیلئے دیوار کی تعمیر کو ادبا اللہ رب العزت کی طرف منسوب کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے نمائندہ جادوگروں کے مابین ہونے والے مکالمے میں جادگروں نے مقابلہ سے پہلے ادبا حضرت موسی علیہ السلام سے درخواست کی کہ پہلے آپ اپنا عصا ڈالیں گے یا ہم؟ صرف اس ادب کے باعث اللہ تعالی نے تمام جادوگروں کو ایمان کی دولت سے نواز دیا۔ روزِ قیامت حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ مسیحیوں کو آپ نے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا؟ حضرت عیسی علیہ السلام ادباً عرض کریں گے: مولا! اگر میں نے کہا ہوتا تو تو بہتر جانتا ہے۔ بارگاہِ الٰہی کے ادب کے باعث اُنہوں نے اپنی صفائی بھی پیش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں آقا علیہ السلام کی بارگاہ کا ادب سکھایا ہے۔ آپ ﷺ کو عام لوگوں کی طرح بلانے، مخاطب کرنے یا عامیانہ انداز میں آپ ﷺ سے بات کرنے سے منع فرما دیا ہے ۔ چند بدو صحابہ کرام نے آقا علیہ السّلام کو حجرے کے باہر سے باآواز بلند پکارا تو اللہ رب العزت نے تنبیہ فرمائی کہ انکو (بارگاہ رسالت مآب کے ادب کی) عقل و شعور ہی نہیں۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ کے آداب آج بھی اُسی طرح قائم ہیں جیسا کہ آپکی ظاہری حیات میں تھے۔ افسوس! آج ہم ادب سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ انبیاء، صحابہ کرام اور اولیاء کرام کی تعظیم و ادب کو شخصیت پرستی، شرک و بدعت اور خرافات قرار دے دیتے ہیں جبکہ ذخیرۂ حدیث میں صحابہ کرام کا آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے لئے غایت درجہ تعظیم و ادب بجا لانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ امام بخاری نے الأدب المفرد میں باب باندھا ہے: صحابہ کرام کا آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کا باب اور اسی طرح دہگر محدثین نے بھی یہ باب باندھا ہے۔ گویا بارگاہِ رسالت کا غایت درجہ ادب و تعظیم اجل محدثین کا مشرب تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رض اللّٰہ عنہ کا حالت نجابت میں آقا علیہ الصلواۃ والسلام سے اتفاقا سامنا ہوگیا تو حضرت ابوہریرہ ادبا تیزی سے آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے سامنے سے ہٹ گئے۔
انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب سے پوچھا گیا: آپ اور حضورﷺ میں بڑا کون ہے؟ وہ ادب سے یوں گویا ہوئے: بڑے آقا علیہ السلام ہی ہیں میں صرف پیدا پہلے ہوگیا ہوں۔ صحابہ کرام صرف حاملِ ادب نا تھے بلکہ وہ کمالِ ادب کا مرقع تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عکھم آقا علیہ الصلواۃ کے رشتوں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبتوں کا بھی ادب وحیاء کرتے۔ حضرت عباس کو آتا دیکھتے تو ادبا سواری سے اتر جاتے۔ بدقسمتی سے آج ہمارا دین ادب سے خالی ہوگیا ہے۔ یہ تحریک منہاج القرآن کا طرۂ امتیاز ہے کہ اُس نے لوگوں کو ادب کا شعور دیا ہے اور دلیل کے ساتھ دیا ہے اور ادب سے معمور ایمان کا تصور دیا ہے اور دلیل کے ساتھ دیا ہے۔ جب حيا ہوتا ہے تو ادب ہوتا ہے، جب ادب ہو تو ایمان مکمل ہوتا ہے۔ ادب سے پہلے ایک درجہ آتا ہے جسے "خُلق" کہتے ہیں! انسان کے اندر اچھائی کی جو صلاحیت ہے، اس potential کو utilize کرنا اخلاق حسنہ کہلاتا ہے۔ جب یہ صلاحیت آپ کا عمل بن جائے اور اس میں پختگی آجائے تو اسے "اخلاق" کہتے ہیں اور جب "اخلاق" میں مزید خوبصورتی اور نکھار آ جائے تو اسے "ادب" کہتے ہیں!۔
انہوں نے کہا کہ جو ادب سیکھنے سے ملتا ہے وہ صرف علم سیکھنے سے نہیں ملتا۔ ادب کا ایک باب سیکھنا علم کے 70 باب سیکھنے سے بہتر ہے، میرے بیٹو، بیٹیو، بھائیو, بہنوں اور بزرگو دین کو بچانے کے لیے ہر ایک کے لیے واجب ہے کہ ادب کی طرف لوٹ آئے، ادب اور حیا کی قدریں پھر سے زندہ کریں، اور ان حدود کو قائم کریں جن حدودِ ادب کے ساتھ دین کی سلامتی ہوتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن ادبِ دین کی تحریک ہے، میرا یہ دین کی پختگی کا پیغام، اللہ کے وجود پر ایمان لانے کا پیغام، خدا کو کیوں مانیں کی معرفت کا پیغام، اور حقیقی دین کے فہم کا پیغام، وہ دین جو ادب سے معمور ہے اس کا پیغام لوگوں تک پہچائیں، تاکہ آپ کی پوری زندگیاں دمِ آخر تک ادب سے منور ہوجائیں اور اس سے آپ کے دین کی حفاظت ہو۔
تبصرہ