شہراعتکاف میں 29ویں شب رمضان المبارک کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سلسلہ وار سیریز ’’طہارۃ القلوب‘‘ میں ’’امراض قلب‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غل، حقد اور حسد انسان کا خون چوس لیتے ہیں، اس کا سکون اور چین چھین لیتے ہیں۔ جب دل میں حسد آ جاتا ہے تو یہ جان لیوا بن جاتا ہے اور حسد کرنے والے پر جنت حرام کر دی جاتی ہے۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جیسے لکڑیوں کو آگ کھا جاتی ہے۔ جب کسی بھی دل میں حسد آ جائے تو یہ جنت میں جانے سے بھی روک دیتا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور شہراعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین بھی موجود تھے۔
انہوں نے سات امراض قلب بیان کرتے ہوئے کہا کہ دل کی پہلی مرض غل ہے، دوسری حقد، تیسری غش، چوتھی حسد، پانچویں العداء، چھٹی بغض اور دل کی ساتویں مرض الشہناء ہے۔ یہ سات امراض انسان کو جکڑے ہوئے ہیں۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ مختلف صوفیاء، اولیاء، علماء، صالحین اور آئمہ کے ہاں ان تمام امراض قلب پر الگ الگ اور تھوڑا تھوڑا بیان ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ علم کی ہر ترتیب ایک ہی ہو، استنباط علم کے مختلف ذرائع ہیں، جس سے ترتیب بھی الگ الگ ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تابعین میں سے حضرت وہب بن منبع بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غیر تحریف شدہ تورات میں پڑھا کہ اللہ رب العزت نے انسان کو چار چیزوں سے ترتیب دیا۔ اس نے پانی و مٹی سے بنے انسان میں خشکی و تری اور گرمی و سردی رکھی۔ انسان کی طبعیت کے اندر خشکی جو ہے، یہ ساری اس کے جسم میں مٹی کی طرف سے ہے۔ اس طرح رطوبت پانی کی طرف سے ہے۔ انسان کسی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کی طبعیت میں رقت آ جاتی ہے۔
اسی طرح حرارت نفس کی طرف سے ہے اور ٹھنڈک روح کی طرف سے ہے۔ اگر نفس کی چیزیں غالب آئیں تو طبعیت میں نفرت، شدت پیدا ہوتی ہے۔ روح کی طرف سے جو اثرات انسان کی طبعیت پر ہوتے ہیں، ان میں حیاء کرنا، علم، حلم، عقل، بزرگی، وقار کی زندگی، اچھے کام کرنا، سچائی اور صبر کرنا، یہ سب روح کی طرف سے ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ انسان کا دل پانچ خصلتوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے دل میں کچھ صفات بھیمیہ ہیں، کچھ درندوں جیسی صفتیں ہیں۔ تیسری صفت شیطانی ہے۔ چوتھی صفات الملکیہ یعنی فرشتوں جیسی ہے۔ پانچویں قسم صفت روحانیہ یا ربانیہ ہے۔
انسان کے اندر عام جانوروں والی صفات قلب پر غالب ہو تو اس انسان پر شہوت کی خواہش غالب ہوتی ہے۔ شہوت صرف نفسانی خواہش کا نام نہیں بلکہ اس میں لالچ، خواہشات، خود نمائی وغیرہ کی خواہشات انسان کے اندر آ جاتی ہیں۔
اگر انسانی قلب پر درندوں والی صفات غالب آ جائیں تو اس کی طبعیت میں غل، غش، حقد، حسد، شہناء، ہوس غالب آ جاتا ہے۔ جس کی صفات درندوں جیسی پھاڑ دینے والی ہوتی ہے۔
قلب کی تیسری صفت شیطانی ہے، جس میں انسانی طبعیت میں دونوں صفات صبعیت و بھیمیت ایک ساتھ جمع ہو جاتی ہیں۔
جس انسانی دل میں یہ بیان کر دہ تینوں صفات جمع ہو جائیں تو پھر وہ تینوں ملکر اس کے لیے شیطانیت بن جاتی ہیں۔ کیونکہ شیطان نے کہا کہ میں انسان کے آگے پیچھے سے آوں گا۔ ان کو اخلاق شیاطین بھی کہتے ہیں۔
پھر آگلی قسم ملکیہ ہے، جو فرشتوں والی صفات ہوتی ہیں۔ آگے روحانیہ صفات آ جاتی ہیں، جو بندے کو عبادت گزار، صالح اور روحانی عادات والا بنا دیتی ہیں۔
انسانی دل میں ساتوں امراض کا تعلق ’’غضب‘‘ سے ہے۔ دل میں جہل کا مطلب علم کی کمی یا جہالت نہیں بلکہ اس بندے کے دل میں جہل ہو تو اس بندے کو کسی بندے کی اچھی چیز بھی بری نظر آتی ہے۔ کسی کا کمال ہے تو اس کو نقص نظر آتا ہے اور نقص کمال نظر آئے گا، اس میں فرق نہیں کر سکے گا۔
انسانی دل میں جب غل آ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ دل جکڑا گیا، دل جب بندھ جائے تو وہ کھلتا نہیں۔ دل میں کسی بندے کی ناپسندیدگی نفرت میں بدل جائے۔ جیسے علماء، پیروں، لیڈروں، تاجروں اور سب کے دل میں غل ہوتا ہے۔
یہ غش یعنی دھوکہ ہے، جو لیڈر اور شیخ اپنی رعیت کے ساتھ کرتا ہے۔ جیسے سیاسی لیڈر بھی دلوں میں غل لیے پھرتے ہیں، یعنی دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور ہوتا ہے۔ کوئی عوام سے ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے، کوئی اسلام کی بات کرتا ہے، کوئی نظریہ پاکستان کی بات کرتا ہے، کوئی عوام کی بات کرتا ہے لیکن سب کچھ اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب دل میں حسد آ جائے تو دل چاہتا ہے کہ جو کچھ کسی دوسرے کے پاس ہے، اسے کیوں ملا ہے، وہ میرے پاس بھی آ جائے۔ یہ حسد کی قسم بہت ہی ہلاکت انگیز ہے۔ حسد دین کا ہو یا دنیا کا ہو تو دونوں صورتوں پر ہلاک انگیز ہے اور حسد کرنے والے پر جنت حرام کر دی جاتی ہے۔ جس کے دل میں حسد ہے تو وہ پندرہ شعبان کی شب کو بھی نہیں بخشا جاے گا۔
شیخ الاسلام نے امراض قلب کا علاج تجویز کرتے ہوئے کہا کہ دل کے امراض کا علاج تصفیہ قلب ہے۔ خود کو گناہوں سے دور رکھیں اور اس کے لیے ہمیں اپنے اندر روحانی اقدار کو فروغ دینا ہو گا۔ جب بندہ کسی دوسرے کے عیب کو چھپاتا ہے تو یہ عمل اللہ کو بہت پسند ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ستار الغیوب ہے۔
تبصرہ