شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہراعتکاف میں تیسرے روز ’’طہارۃ القلوب‘‘ کے سلسلہ میں ’’خطرہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک برے خیال اور دل میں امراض کے پہلا قطرہ کو خطرہ کہتے ہیں۔ خطرہ اس خیال کو کہتے ہیں جو صرف پہلی بار آپ کے دل و دماغ میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔
صالحین کہتے تھے کہ جب پہلی بار آپ کے دل میں خطرہ آئے تو اسی وقت اپنے دل کی محافظت کرو۔ اسکی مثال یہ ہے کہ آپ کے دل کے اندر نیکی کا جذبہ تھا، اطاعت، بھلائی، خیر، عبادت، سخاوت، توبہ اور اچھائی تھی تو خطرہ پہلی بار اس کو ہٹ کرتا ہے۔ جب پہلی بار خطرہ یعنی برا خیال آتا ہے تو اچھا چوکیدار وہ ہے، جو اسی وقت اس خطرہ کیخلاف حفاظت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب خطرہ پہلی بار آتا ہے تو اس کیخلاف حفاظت نہیں کی گئی تو یہ خطرات پھر دوبارہ آنا شروع ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ خطرہ جب بار بار دل و دماغ میں آئے تو پھر یہ وسوسہ بن جاتا ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ لوگو اپنے دلوں کی سیکیورٹی کرو، تاکہ کوئی مشکوک شے یعنی خطرہ تمہارے دل کو نہ چھوئے، جو آدمی سیکیورٹی نہیں کرتے تو ان کیخلاف خطرات آسانی سے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ کی جان کے دشمن کم ہیں اور ایمان کے دشمن بہت زیادہ ہیں۔ شیطان انسان کے ایمان کا بڑا دشمن ہے۔
قرآن مجید میں شیطان نے اللہ رب العزت کی قسم کھا کر کہا کہ میں ہر صورت ضرور بالضرور تیرے سارے بندوں کو گمراہ کر دوں گا، سوائے جو تیرے چنیدہ لوگ ہوں گے۔ جس بندے کے پاس نیکی، ہدایت اور اچھائی کا زیادہ خزانہ ہے تو وہ بندہ اتنا ہی زیادہ خطرے میں ہے، شیطان اس بندے کے پاس اتنا ہی بڑا دشمن خطرہ کی شکل میں بھیجے گا۔ جس کے پاس سرے سے کچھ خیر ہے ہی نہیں تو ابلیس اس کو کیوں گمراہ کرے گا، کیونکہ وہ تو پہلے ہی نیکی اور خیر سے خالی ہے۔ شیطان صراط مستقیم میں اپنا ٹھکانہ بنا کر بیٹھتا ہے تاکہ سیدھی راہ والے لوگوں کو گمراہ کر سکے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ لوگو ہر وقت یہ تصور رکھو کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس تصور کو دل میں ہمہ وقت جمائے رکھنے کو مراقبہ کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں عرف عام میں ایک اصطلاح ہے کہ جب ہم گردن جھکا کر ذکر کرتے ہیں تو اس کو مراقبہ کہہ دیتے ہیں، دراصل یہ صورت ایک عارضی مراقبہ ہے، جس میں آپ دل میں اللہ کی یاد کو محفوظ کر رہے ہیں۔ حقیقت میں مراقبہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جب چند لمحوں کے لیے نہیں بلکہ زندگی میں دائمی کیفیت کو مراقبہ کہتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے اقسام قلب بتاتے ہوئے کہا کہ دلوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک دل قلب سلیم، دوسرا قلب میت اور تیسرا قلب سقیم ہے۔ قلب سلیم سے مراد قلب صحیح اور سلامتی والا ہوتا ہے، جسے زندہ دل یعنی قلب حی بھی کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درجہ صبر کیا ہے، صبر ایک مضبوطی اور استحکام کا نام ہے۔ شیطان انسان کے اس اطمینان اور مضبوطی کو توڑنا چاہتا ہے۔ آپ کو جہاں سے خیر مل رہی ہے، وہاں سے شیطان آپ کو دور کرنا چاہتا ہے۔ شیطان اولیاء، صالحین کے بارے شک پیدا کرے گا، جن سے آپ جڑے ہوئے ہیں۔ جو جو بھی منبع خیر ہیں تو شیطان وہاں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اگر بندے کے دل میں صبر کی فاونڈیشن بہت مضبوط ہو تو پھر شیطان جتنا بھی زور لگا لے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
شہراعتکاف میں شیخ الاسلام کی خطاب کی تیسری نشست میں خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل آغا جعفر روناس مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور، صاحبزادہ محمد قاسم، سید محمود علی شاہ، راجہ زاہد محمود، جواد حامد، سردار شاکر خان مزاری، علامہ امداد اللہ خان، نعت خواں محمد سرور سہروردی بھی موجود تھے۔
تبصرہ