تحریر : اے جے تبسم
انسان اپنے معبود اور پالن ہار کے ساتھ مختلف طریقوں سے تعلق قائم کرتا ہے کبھی تنہائی میں روکر اور کبھی سرمحفل پکار کر، کبھی کھلی وادیوں میں گھومتے ہوئے تو کبھی لق و دق صحرا میں بھٹکتے ہوئے، کبھی اونچے پہاڑ سر کرتے ہوئے، تو کبھی دریا اور سمندر عبور کرتے ہوئے، کبھی چبھن سے مزہ لیتے ہوئے کبھی آسودگی میں شکرادا کرے تو کبھی تکلیف میں گلہ کر ے غرض یہ کہ انسان اپنی فطرت صبر اور برداشت کے مطابق اللہ سے مختلف طریقوں سے ہم کلام ہوتا ہے کبھی کبھی انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو جس نے ساری دنیا بنا کر اشرف المخلوقات کے قدموں میں ڈھیر کر دی، کبھی جی میں آتا ہے کہ سر میں خاک ڈال کر بستی بستی قریہ قریہ دیوانہ وار اس پروردگار کی الوہیت اور عظمت کے راگ الاپے جائیں جس نے انسانی پتلے میں اپنی محبت کا جوہر عظیم رکھ کر اسے بے مثل بنا دیا، کبھی دل میں یہ تمنا سر اٹھاتی ہے کہ کسی جنگل یادریا کے کنارے سادھوبن کر ڈیرہ لگا لیا جائے اور ساری دنیا سے کٹ کر بس اسی ذات کا ورد و وظیفہ کیا جائے جو فرماں برداروں کے ساتھ ساتھ نافرمانوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھتا ہے گویا انسان اللہ سے لو لگانے کے لئے تنہائی کی تلاش میں رہتا ہے اور تنہائی کے حصول کے لئے بعض اوقات ترک دنیا بھی ہو جاتا ہے گویا وہ اعتدال کی راہ چھوڑ کر مخلوق سے بے رغبتی اور کنارہ کشی میں افراط کرتا ہوا بہت دور تک نکل جاتا ہے تاریخ انسانی خصوصاً عیسائیت میں ایسے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں۔
جب انسانوں نے دنیا سے لاتعلقی کا اعلان کیا یوں معرفت حق اور وصال محبوب کے متلاشیوں نے لذات نفسانی سے دست برداری اور علائق دنیاوی سے کنارہ کشی کی وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں میں جا بسے۔ بیوی، بچوں اور معاشرتی زندگی کی دیگر مصروفیات سے منہ موڑکر غاروں کی خلوتوں اور جنگلوں کی تنہائیوں میں جا ڈیرہ لگایا اور وہیں رہ کر کثرت عبادت ومجاہدہ بلکہ نفس کشی کے ذریعے وصالِ حق کی جستجو کرنے لگے۔ قرآن نے ان کے اس تصور حیات کو رہبانیت کے نام سے موسوم کیا۔ قرآن پاک کی رو سے یہ طرز زندگی وصال حق کی متلاشی روحوں نے از خود اختیار کیا تھا، یہ طریقہ ان پر فرض نہیں تھا۔ ارشاد ہوتا ہے’’ اور رہبانیت جس کی ابتداء خود انہوںنے کی ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے اے اللہ کی رضا کے لئے اختیار کیا لیکن جس طرح اس کو نبھانا چاہئے تھا اس کو نبھا نہ سکے پھر بھی ان میں سے جو ایمان لائے ہم نے ان کو اجر دیا اور ان میں سے اکثر تو نافرمان ہی ہیں‘‘ (الحدید، ۵۷:۲۷)
دین مصطفوی میں نہ تو رہبانیت کی گنجائش ہے اور نہ تصور بلکہ اسلام تو مخلوق اور اجتماع میں رہتے ہوئے اللہ سے لو لگانے کی بات کرتا ہے، تزکیہ نفس، تصفیہ باطن اور صفائی قلب ہمیشہ سے سعید روحوں کا خاصا رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اسی مقصد کے لئے اسلام نے تربیت کا بہت ہی اچھااور جامع پروگرام عطا کیا ہے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہونے والا اعتکاف اس سلسلے میں نہایت اہم، مؤثر اور فائدہ مند پروگرام ہے۔ اعتکاف تلاش حق کی اس جستجو کا نام ہے جس پر رہبانیت کا سایہ تک نہیں بلکہ اعتکاف تو رہبانیت کی ضد ہے۔ اعتکاف اجتماع سے کٹ جانے کا نام بھی نہیں بلکہ اجتماع میں رہتے ہوئے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ اعتکاف چند روز کے لئے دنیا کی الجھنوں سے بے نیاز ہو کر اپنے خالق و مالک سے تعلق بندگی استوار کرنے کا نام ہے، یادالٰہی میں آنسو بہانے، اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا نام ہے۔ اسلام میں تمام عبادات کا مقصود اس خدائے لا شریک کی بندگی ہے جو اس جہان رنگ و بو کا مالک ہے، جو ہواؤں کو اذن سفر دیتا ہے، جس نے حضور(ص) کے سر انور پر ختم نبوت کا تاج سجایا اور انہیںکل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا لیکن ان عبادات کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کے ظاہروباطن کی روشنیوں سے منور کرتا ہے۔ وہ جہاں فرد کے اندر پاکیزگی، طہارت اور تقویٰ کے اوصاف دیکھنا چاہتا ہے وہاں وہ ان روشنیوں پر انسانی معاشرے کی بنیادیں بھی استوار کرنا چاہتا ہے، وہ جہاں فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے وہاں وہ ہر سطح پر اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں اجتماعی شعور کو بھی پختہ کرنا چاہتا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کونسی ایسی عبادت ہے جس میں فرد اور معاشرے کی اصلاح کا پہلو نمایاں نہ ہو۔ اعتکاف رسول کریم ﷺ کی سنت ہے جو فرد کے ظاہر و باطن کا منظر نامہ روشنیوں سے تحریر کرتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے در قلب پر دستک دی ہے بلکہ اس نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک کے زیراہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا ابتدائی اظہار اتفاق مسجد اور ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں بھی ہوتا رہا۔ اعتکاف تو وہ ہمیشہ ہی بیٹھتے تھے، 1990ء میں جب وہ ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی وہیں گوشہ نشیں ہو گئے تو ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا، 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی، 1992ء میں جب موجودہ جگہ جو ٹاؤن شپ کے علاقے میں جامع المنہاج کے نام سے موسوم ہے باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 1500 تھی۔ 65 کنال کے اس وسیع و عریض کمپلیکس میں انہوں نے ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی، چند سال قبل انہوں نے مسجد کے سامنے والے لان میں ایک بہت بڑا بیسمنٹ تیار کروایا، یہ تہہ خانہ سارا سال علم کی پیاس بجھانے والوں کے کام آتا ہے تو رمضان کے آخری عشرے میںمعتکفین اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ 1992ء سے معتکفین کی تعداد سال بہ سال بڑھتی گئی جو اب 20 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا کے تقریباً 25 ممالک سے بے شمار افراد بھی اس اجتماعی شہر اعتکاف میں شریک ہوتے ہیں اس کے علاوہ منہاج یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ اور طالبات بھی یہاں موجود ہوتے ہیں۔
اعتکاف گاہ میں خیموں اور تہہ خانوں کا ایک شہر آباد ہے، جس کا نظم و نسق قابل دید ہے، انتظامی سہولت کے لئے معتکفین کو مختلف حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے، حلقوں کی تقسیم اضلاع کی بنیاد پر کی گئی ہے اور ایک حلقہ چالیس افراد پر مشتمل ہے۔ اعتکاف گاہ میں انتظامیہ معتکفین کے مسائل کے حل کے لئے کاؤنٹر قائم کر رکھے ہیں، ایک کمپیوٹرائزڈ کنٹرول روم میں ہر چیز کا حساب کتاب ہے، ہر حلقے کا ایک امیر اور ایک ناظم جن کو حلقے کے افراد باہمی مشاورت سے چنتے ہیں اور یہ عمومی طور پر تحریک منہاج القرآن کا معتبرکارکن ہی ہوتا ہے، امیر اپنے حلقے کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہر آنے والے کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی ہے اور خوراک اور رہائش کے لئے ساڑھے تین سو روپے فی کس وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ بہت قلیل رقم ہے اور اخراجات اس رقم سے پورے ہونا نا ممکن ہیں، اس سوال پر قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بتایا کہ ہماری تنظیم اس سلسلے میں اعانت بھی کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ تقریبا ایک ہزار افراد انتظامی معاملات سے منسلک ہیں جو ایک ایک چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور مختلف کمیٹیوں کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اعتکاف گاہ میں طعام و قیام کے علاوہ طہارت کا وسیع تر بندوبست ہے۔ دو عدد ٹیوب ویل چل رہے ہیں اور ایک ہزار ٹائلٹ بنائے گئے ہیں اور ایک وقت میں تقریباً دو ہزار افراد کے وضو کی گنجائش موجود ہے، طعام گاہ میں صفائی اور پکوائی کا اچھا اور وسیع انتظام ہے اور اس شہر کے ہر باسی کو وقت پر وافر مقدار میں کھانا ملتا ہے، سحری اور افطاری کے حوالے سے کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں ملتا۔ ہم نے کتب کے اسٹال کا معائنہ بھی کیا جس میں ڈاکٹر صاحب کی شائع ہونے والی تقریباً 400 کے قریب کتب رکھی گئی تھیں اور ساتھ ہی پانچ ہزار موضوعات پر آڈیو، ویڈیو اور سی ڈیزکے سیٹ بھی موجود تھے۔
راقم نے مختلف معتکفین سے ان کے حلقوں میں ملاقاتیں بھی کیں، بالخصوص بیرون ممالک سے آئے ہوئے احباب سے یہ پوچھا کہ آخر آپ اتنا سفر کر کے محض اعتکاف کی خاطر یہاں کیوں آئے حالانکہ اعتکاف تو اپنے شہر یا محلے کی مسجد میں بھی بیٹھ سکتے ہیں، ان لوگوں کے جوابات بہت خوبصورت تھے البتہ ایک بات مشترک تھی اور وہ ڈاکٹر صاحب سے عقیدت، چاہت اور محبت کے جذبات ہیں جس سے مغلوب ہو کر وہ پاکستان کے شہر اعتکاف پہنچے۔ بھارت سے آئے ہوئے سید ہدایت اللہ شاہ نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی معیت میں اعتکاف بیٹھنے میں روحانی مسرت محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح ملائیشیا، کینیڈا، ناروے، ڈنمارک، لنڈن، نیوجرسی، ہالینڈ، یونان سے آئے ہوئے افراد نے بھی اپنی اپنی داستانیں سنائیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے روحانی لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔ کویت سے آئے ہوئے محمد رفیق نے بتایا کہ وہاںادارہ منہاج القرآن کی کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور 6 ہزار سے زائد افراد تحریک منہاج القرآن کے لائف ممبر ہیں۔ برمنگھم سے آئے ہوئے نوجوان محمد سعد کا کہنا تھا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے روحانیت کا علم سیکھا ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے ہم نے پوچھا کہ اسلام میں اعتکاف کا تصور تو قطعی طور پر خلوت سے عبارت ہے جبکہ یہ عجیب شکل کا اعتکاف ہے جہاں جلوت ہی جلوت ہے انہوں نے خلوت اور جلوت کی خوب وضاحت فرمائی اور فرمایا خلوت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ دل کا رجوع مالائے اعلیٰ کی طرف ہو جائے۔ خلوت یہ نہیں کہ بندہ بیٹھا تو تنہائی میں ہو اور اس کا دماغ دنیا جہاں کے خیالات کی آماجگاہ بنا ہو، اس صورت میں وہ خلوت نہیں جلوت ہے جبکہ ہم اس ظاہری خلوت میں بھی حقیقی خلوت کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ ہمارے اس سوال پر کہ شہر اعتکاف اعتکاف کے معروف تصور سے بٹا ہواہے ان کا کہنا ہے کہ عام تصور جہالت کا پیدا کردہ ہے کہ اعتکاف میں منہ چھپا لیا جائے اور بات بھی اشاروں، کنایوں میں کی جائے، اسلام میں ایسا تصور نہیں ہے، اس سلسلے میں انہوں نے حرمین شریفین کے اعتکاف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خود حضرت محمد (ص) کے دور میں مسجد نبوی میں صحابہ جس قسم کا اعتکاف بیٹھتے تھے اس کا جائزہ لے لیں۔ مسجد نبوی کا وہ حصہ جو ریاض الجنہ ہے وہاں حضور اکرم (ص) کے ساتھ دیگر اصحاب اعتکاف بیٹھے تھے جن میں اصحاب صفہ کے ستر صحابہ کرام بھی شامل تھے وہاں حضور (ص) ان کی تربیت فرماتے تھے۔ آج بھی ہزار ہا افراد اسی اجتماعی ماحول میں اعتکاف کی برکتیں سیمٹتے ہیں۔ لہذا اصل بات یہ ہے کہ اعتکاف میں اپنے آپ کو دیگر تمام امور سے ہجرت کرتے ہوئے اللہ اور دین کے امور میں خاص کر دیا جائے۔ وعظ و نصیحت اور تلقین کچھ بھی خلاف سنت نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم نے اعتکاف کو ثواب برائے ثواب نہیں رہنے دیابلکہ اسے تعلیم، تربیت اور تزکیہ نفس کا ایسا ذریعہ بنا دیا ہے جس سے لوگ بہت کچھ سیکھ کر جاتے ہیں۔ ہمارے اس سوال پر کہ یہ اعتکاف گاہ کی بجائے تربیت گاہ محسوس ہوتی ہے تو قادری صاحب کا کہنا تھا کہ اعتکاف ہوتا ہی تربیت کے لئے ہے، اس لئے اس شہر اعتکاف کو تربیت گاہ کہہ سکتے ہیں۔
شہر اعتکاف میں ملک اور بیرون ملک سے اس اجتماعی اعتکاف میں شرکت کرنے والوں کی تربیت کا بہت اچھا انتظام کیا جاتا ہے، تمام تربیتی امور ڈائریکٹر نظامت دعوت رانا محمد ادریس کے سپرد ہیں، انہوں نے ہمیں اعتکاف میں ہونیوالے تربیتی پروگرام کے حوالے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ معتکفین نماز تہجد ادا کرنے، سحری کھانے اور اشراق کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے آرام کرتے ہیں اور ساڑھے نو بجے اٹھ کر نماز چاشت ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد تربیتی حلقہ جات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں مطالعہ قرآن و حدیث کے بعد تصوف اور فقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بنیادی قسم کی دعائیں اور دیگر وظائف وغیرہ یاد کروائے جاتے ہیں۔ ان حلقہ جات کے انعقاد کی ذمہ داری منہاج کالج آف شریعہ کے شاہین صفت، با کردار اور باصفا طلباء کے پاس ہوتی ہے جو تربیتی امور میں عملی طور پر حصہ لے کر معتکفین کی خدمت سرانجام دیتے ہیں اور ان کو درس قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ اور تصوف کی باریکیاں بڑے ہی شاندار طریقے سے سمجھاتے ہیں۔ حلقہ جات کے اختتام پر ساڑھے بارہ بجے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہر روز ایک تربیتی خطاب ہوتا ہے جس کو سننا ہر معتکف کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مدلل اور خوبصورت خطاب کے بعد نماز ظہر اور قیلولہ ہوتا ہے، نماز عصر کے بعد فقہی مسائل کی نشست ہوتی ہے جس میں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی صاحب معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ شہر اعتکاف میں طاق راتوں کو خصوصی طور پر ذکر و نعت کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں ایک عجیب وجدانی اور کیف و مستی کی کیفیت ہوتی ہے اور ذات حق کی تجلیات کے متلاشی گوہر مراد سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
اس شہر اعتکاف کی نگرانی مرکزی ناظم اعلیٰ کے سپرد ہے جو تمام قسم کے انتظامی اور تربیتی امور کی مجموعی طور پر نگرانی کرتے ہیں ان سے جب میں نے اس اجتماعی اعتکاف کے حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن کا مرکز ایک دھوبی گھاٹ کی طرح ہے یہاں میلی کچیلی اورزنگ آلود روحوں کو دھو کر ان کو پاک صاف کر دیا جاتا ہے۔ لوگ یہاں آتے ہیں اور فیوض و برکات سے اپنی جھولیاں بھر کر لے جاتے ہیں۔ انتظامی امور کے نگران مرزا خالداقبال کامریڈنے کہا کہ اتنی تعداد میں لوگوں کی رہائش اور خوراک کا انتظام یقیناً ایک مشکل امر ہے لیکن عزم مصمم اور ٹیم ورک کی بدولت ہم نے اس مشکل امر کو نہایت بخوبی سرانجام دیا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ معتکفین کو کسی قسم کی بھی کوئی شکایت نہیں ہے۔ اس اجتماعی اعتکاف میں معتکفین کے لئے کھانے کا انتظام شیخ محمد رفیع کے سپرد ہوتا ہے۔
اس اجتماعی اعتکاف میں ہزاروں خواتین بھی شرکت کرتی ہیں جن کی تربیت کی ذمہ داری منہاج القرآن ویمن لیگ کے سپر د ہوتی ہے۔ خواتین کی اعتکاف گاہ قریب ہی منہاج کالج برائے خواتین میں قائم کی جاتی ہے جو کلوز سرکٹ ٹی وی کے شہر اعتکاف سے منسلک ہوتی ہے۔ اعتکاف میں شریک تمام خواتین کے تربیتی اور انتظامی امور کی ذمہ داری فریدہ سجاد کے پاس ہے جبکہ ان کے ساتھ مسز حمیرہ راشد اور رافعہ علی بھی کمیٹی کے ممبران کی حیثیت سے تمام امور بڑے احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں فریدہ سجاد نے بتایا کہ ہم نے اس شہر اعتکاف میں شریک خواتین کی تعلیم و تربیت کا بہت ہی اچھا اور مؤثر اہتمام کر رکھا ہے یہاں پر آنے والی تمام خواتین کے لئے روحانی تسکین کا سامان موجود ہے تربیتی حلقہ جات بھی ہوتے ہیں جن میں ان کو قرآن و حدیث کے مطالعہ کے ساتھ دیگر فقہی اور شرعی مسائل سے بھیٓآشنا کیا جاتا ہے۔ حلقہ جات کے انعقاد میں منہاج کالج فار ویمن کی شب زندہ دار طالبات اپنا کردار نہایت خوش اسلوبی سے ادا کرتی ہیں اور اپنی مہمان ہستیوں کی میزبانی کے فرائض خوبصورت انداز میں انجام دیتی ہیں۔ اعتکاف گاہ میں دیگر سہولیات کے ساتھ ڈسپنسری کا قیام بھی لازماً ہوتا ہے جہاں کسی اچانک حادثے سے نمٹنے کا بخوبی بندوبست ہوتا ہے اور معتکفین کو مفت دوا اور علاج کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ اس شہر اعتکاف میں ایک عجیب روح پرور منظر ہوتا ہے، روحانی طور پر سرشاری کی کیفیات اس شہر کے باسیوں کے چہروں پر بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں۔ راتوں کے قیام، ورد وظیفے، تلاوت قرآن اور نعت خوانی ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔
اس اجتماعی اعتکاف میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شرکت کرتی ہے جو روحانیت کے فیوض سے جھولیاں بھر کر رخصت ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں اس اعتکاف گاہ پر رحمتوں اور برکتوں کی خصوصی بارش ہوتی ہے۔ پتھر سے پتھر دل یہاں آکر نرم ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے لوگ رحمتوں، برکتوں اور محبتوں کے خزانوں سے جھولیوں کو بھر کر روانہ ہوتے ہیں۔ یہاں پیار، محبت، ایثار، قربانی، رواداری اور ہمدردی کے جذبات کا مظاہرہ ہر وقت دیکھنے کو ملتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کا یہ اجتماعی اعتکاف پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد اعتکاف ہے جہاں اتنے زیادہ لوگ دس دن قیام کرتے ہیں اور دین کا صیحح فہم اور تربیت کے موتی لے کو اٹھتے ہیں۔ یہ اعتکاف تحریک منہاج القرآن کے دیگر امتیازات میں ایک سنہری باب کی حیثیت سے شامل ہے۔
تبصرہ