تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک تنگ نظری اور انتہا پسندی ہے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کا دعویٰ محض خوش فہمی ہے، ریاست پاکستان کو سوچ اور نصاب سے انتہا پسندی ختم کرنے کے اقدامات کرنے ہونگے، آج بھی پاکستان اور عالم اسلام کا نمبر ون مسئلہ انتہا پسندی، عدم برداشت اور دہشتگردی ہے، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ ہمارا قومی مسئلہ ہے، اس سے عہدہ برآں ہونے کیلئے قوم کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنی ہو گی، دینی و دنیاوی تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظر ثانی ناگزیر ہے، اسے امن اور محبت کی فکر سے ہم آہنگ کرنا ہو گا، حضور نبی اکرم ﷺ کے احکامات کی روشنی میں امن اور سلامتی والی حقیقی تعلیمات ہر مسلمان کو اپنے اندر پیدا کرنا ہونگی، دوسروں کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا بڑھانی ہو گی، انہوں نے کہا کہ رواداری اور برداشت کی انسانی صفات گھر سے باہر اپنانے کے ساتھ ساتھ انہیں گھر کے اندر بھی اپنانا ہو گا، اپنی ذات، گھر، خاندان، کاروبار ہر جگہ تحمل اور برداشت کا رویہ اپنائیں، افراد اورمعاشرے کا تعلق جس بھی قوم، برادری، رنگ و نسل سے ہو اس کا احترام کیا جائے، ہر قسم کی لڑائی، فتنہ و فساد اور ظلم سے اپنے آپ کو دور رکھیں، ایک صحت مند انسانی، اسلامی معاشرہ کی تشکیل کیلئے یہ صفات ہر شہری کو اپنے اندر پیدا کرنا ہونگی۔
انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر بھی کچھ ایسے اقدامات ناگزیر ہیں جنہیں روبہ عمل لانے سے ہم انتہا پسندی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ کفر و شرک کے فتوے بند کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا کہ مسجد محبت، امن، اجتماعیت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا مرکز ہے اور اگر کوئی امن کے اس مرکز کو نفرت اور انتہا پسندی کے فروغ کیلئے استعمال کرے تو اس کا راستہ روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے ساتھ ساتھ عوامی حلقے بھی امن کے فروغ کیلئے کردار ادا کر سکتے ہیں، مخیر حضرات ایسے اداروں، ایسے افراد اور ایسی شخصیات کو صدقات، زکوٰۃ، خیرات نہ دیں جو اس کا درست استعمال نہیں کرتے۔ جو امت کو تقسیم کرنے کیلئے اپنی توانائیاں بروئے کار لاتے ہیں، ایسے طبقات کی معاشی دست گیری نہ کی جائے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین نے کہاکہ اسلام امن اور محبت کا دین ہے، ایمان والے صرف محبت کرتے ہیں وہ اللہ اور اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں، آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے قلب کے ساتھ ساتھ اعمال کا مرکز بھی رسول مکرم ﷺ کی حیات طیبہ کو بنائیں۔
تبصرہ