شہراعتکاف میں جمعۃ الوداع کا اجتماع 23 جون 2017ء 27 رمضان المبارک کو جامع المنہاج بغداد ٹاون میں منعقد ہوا، جہاں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ’’رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ جمعۃ الوداع کے لیے ہزاروں معتکفین کے علاوہ ملک بھر سے فرزندان اسلام کی بہت بڑی تعداد نے جامع المنہاج کا رخ کیا، جن کے لیے اعتکاف گاہ سے ملحقہ سڑکوں پر شامیانے لگا کر انتظام کیا گیا تھا۔
رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ماننے والوں کے لیے بھی رحمت تھے اور جو آپ کو نہیں مانتے تھے اور کافر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لیے بھی رحمت تھے۔ عالم جن و انس، عالم بشریت، عالم نورانیت، عالم جمادات، عالم نبادات غرضیکہ سب عوالم حضور کی رحمت کا صدقہ کھا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق بھی رحمت ہے اور آپ کا چہرہ مبارک بھی رحمت خدا کا مظہر اتم ہے۔ ایک کائنات کا سورج دنیا میں روشنی کرتا ہے ایک ہمارا سورج ہے، جب وہ چمکتا تو ہر سمت باقی تمام سورجوں کی چمک ماند پڑ جاتی۔
حضور کے ہاتھوں میں بھی رحمت ہے اور حضور کے چہرہ انور میں بھی رحمت ہے۔ صحابہ ایک نگاہ چاند کو دیکھتے اور ایک نگاہ مصطفیٰ کے چہرہ مبارک کو دیکھتے اور ایمان سے گواہی دیتے کہ چودھویں کے چاند سے مصطفیٰ کا چہرہ زیادہ چمک رہا ہے۔ حضرت عروہ بن مسعود سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن صحابہ اپنے چہروں، ہاتھوں پر ملتے۔ کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اس لعاب دہن میں شفاء ہے۔
دست مصطفیٰ کا معجزہ
اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بھی رحمت بنایا، حضور جس بچے کے سر پر ہاتھ رکھتے، کسی کے گالوں پر ہاتھ پھیرتے تو اس سے آنے والی خوشبووں سے پتہ چلتا کہ کسی عطار کے ڈبے کو کھول دیا گیا ہے۔
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر قافلہ آ رہا ہے۔ قافلے میں 55 ہزار نفوس تھے لیکن کسی ایک کے پاس بھی پانی کا قطرہ نہ تھا۔ نماز کا وقت ہو گیا، قافلہ رک گیا۔ ابوقتادہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ چھاگل لے آو، جس میں چند قطرے پانی بچ گیا تھا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس اس چھاگل ڈالا۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ چھاگل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلی سے پانی کے چشمے پھوٹے اور پانی ہی پانی ہو گیا۔
سب نے دیکھا کہ دس ہزار گھوڑے، پندرہ ہزار اونٹ اور 55 ہزار انسانوں نے دل کھول کر پانی استعمال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی عزت کی قسم اگر اس سے زیادہ بھی ہوتے تو پانی کافی تھا۔ اس معجزہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی بڑھایا نہیں بلکہ اپنی انگلی سے پانی پیدا کیا۔
غلاموں کے لیے رحمت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلاموں کے لیے بھی رحمت ہیں۔ ایک دفعہ ایک عورت مسجد نبوی میں آ گئی اور اس عورت نے عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے آپ سے کوئی کام ہے۔ کہتی ہے کہ ادھر مسجد میں نہیں ادھر اس گلی میں کام ہے۔ حضور نے اپنے نعلین بھی نہیں پہنے اور اس کی بات سننے کے لیے ننگے پاوں مسجد نبوی سے باہر گلی میں آ گئے۔ وہ عورت آپ کو گلیوں میں پھراتی رہی اور ایک جگہ جا کر اس نے حضور کو اپنی حاجت بتائی، جسے آپ نے فوری پورا کر دیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موٹے کنارے والی نجرانی چادر پہنی ہوئی تھی کہ اچانک صحرا میں رہنے والا بدو آ گیا۔ اس کو وہ چادر پسند آئی اور اس نے وہ چادر آپ سے کھینچ لی، جس سے آپ کی گردن مبارک پر نشان پڑ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں فرمایا کہ یہ تو نے کیا کیا؟
دشمنوں پر رحمت
فتح مکہ سے پہلے اہل مکہ یعنی کفار پر سخت قحط آ گیا، باربار لوگ آسمان کی طرف دیکھتے لیکن دھوئیں کے سوا انہیں کوئی نر نہیں آ رہا۔ جب کھانے کے لیے کچھ نہیں رہا تو ہڈیاں کھانے لگے۔ انہوں نے ابوسفیان کو حضور کی بارگاہ میں بھیجا۔ ابوسفیان مدینہ جا کر عرض کرتے ہیں کہ اے محمد آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے۔ قحط سالی سے تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس کیا لینے آو ہو۔
ابوسفیان نے کہا کہ آپ ان کے لیے بارش کی دعا کر دیں، حضور نے اسی وقت اپنے دست اقدس اٹھائے اور اللہ نے فوری بارش عطا کر دی۔ آقا علیہ السلام نے ایک لمحہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ تم ہمارے دشمن ہو، تم نے ہمیں مکہ سے نکال دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمنوں کے لیے بھی اپنے ہاتھ اٹھائے، بارش آئی اور قحط سالی ختم ہو گئی
رحمت مصطفیٰ کسی ایک دور میں نہیں ہر دور میں موجود ہے۔ آج یہ رحمت مصطفیٰ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ہم جی رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر رحمت مصطفیٰ کی نسبت سے نرمی پیدا کرے۔ نماز کے بعد ملکی سلامتی و ترقی کے لیے دعا بھی کی گئی۔
تبصرہ