تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام تزکیہ نفس، فہم دین، اصلاح احوال، توبہ اور آنسوؤں کی بستی ’شہرِاعتکاف‘ جامع المنہاج اور اس سے متصل منہاج کالج برائے خواتین میں رمضان المبارک کی تیئسویں شب اخلاقی و روحانی تربیت اور اصلاح احوال کی مجلس کا آغاز نمازِ تراویح کے بعد تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد بارگاہِ رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محمد افضل نوشاہی، محب اللہ اظہر، امجد بلالی، ظہیر بلالی، شہزاد برادران اور دیگر نعت خوانوں نے مخصوص انداز میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔
محفلِ نعت کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معتکفین و معتکفات کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ’خُلقِ عظیم‘ اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں اخلاقی تربیت کو موضوع بنایا۔ خلقِ عظیم کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ’عظیم‘ ہے اور اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو فضل فرمایا اسے بھی ’عظیم‘ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے اس کی تمام صفات عظیم ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق پر چونکہ الوہی رنگ چڑھا دیا گیا تھا اسی لیے آپ کے خلق کو ’خلقِ عظیم‘ کا خطاب دیا۔ خدائے تعالیٰ کے عظیم کہنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ اور اخلاقِ حسنہ میں کسی نقص کا گمان بھی ممکن نہیں۔
شیخ الاسلام نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان سے استدال کرتے ہوئے کہا کہ جب ام المؤمنین سے پوچھا گیا کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ سارا قرآن رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خُلق ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صفات، کائنات کے ہر بشر سے ارفع و اعلی ہیں۔ سارا قرآن، اخلاق محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجموعہ ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کے افضل ترین درجہ سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن و سلامتی کو فروغ دینے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، رشتوں کو جوڑنے اور رات کے اندھیروں میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کو ایمان کا افضل ترین درجہ قرار دیا۔
شیخ الاسلام نے رفقاء اور کارکنان کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کی رفاقت کا مطلب ایک دوسرے کے دکھ، درد کو محسوس کرنا اور دوسرے کی مشکل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اللہ ان لوگوں سے محبت اپنے اوپر واجب کر لیتا ہے جو اس کی رضا کے لیے دوسروں کے درد میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
تبصرہ