موضوع: شہادت سیدنا مولا علی اور مقام صبر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہراعتکاف میں 8 جولائی بیس رمضان المبارک کی شب افتتاحی خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے سورہ فاتحہ اور سورہ البقرہ میں سے منتخب آیات کا درس قرآن دیا۔
ہماری بقاء قرآن میں ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا دنیا میں ہماری سب کی بقاء اور عافیت قرآن میں ہے۔ اللہ کے قرآن کو ایسے ماننا کہ پھر کسی شک کی گنجائش نہ رہے۔ شک اور تردد میں پڑنے کی بجائے قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان پر جم جانے میں ہی ہماری سلامتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر شخص کی بات میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن قرآن کی بات میں کوئی شک نہیں ہوسکتا۔ قرآن اور اللہ کا رسول کسی اندازے اور تجزیئے سے بات نہیں کرتا۔ اس لیے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو مان لیتے ہیں تو پھر اللہ ان کو ہدایت دیتا ہے۔
متقین کی نشانی ۔۔۔ یقین کیساتھ ایمان لانا
ڈاکٹر طاہرالقادری نے لفظ متقین پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متقین وہ لوگ ہیں، جو بن دیکھے اللہ کی بات مان لیتے ہیں۔ جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ اللہ کے قرآن کو مان لیا تو پھر اس کے لیے ہدایت ہے۔ پھر تمہیں نماز کا حکم دیتا ہوں لیکن اگر تم میں یقین ہی نہیں تو تمہاری نماز کا کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یقین کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ اگر جنگ بدر میں تم میرے سامنے آ جاتے تو خدا کی قسم میں اس رب کی خاطر تمہاری گردن اڑآ دیتا جس کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔
اس طرح واقعہ معراج کا جب سیدنا صدیق اکبر کو پتہ چلا تو انہوں نے بتانے والے کو کہا کہ تم حضور کے واقعہ معراج اور مسجد اقصی دیکھنے کی بات کرتے ہو میں نے تو اس رب کی وحی کو مان لیا جس کو کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اس دن اللہ کے رسول نے ابوبکر کو صدیق کا لقب دیا۔
شک اور یقین میں قول مولا علی رضی اللہ عنہ
شیخ الاسلام نے کہا کہ یقین بن دیکھے پیدا ہوتا ہے اور اس سے ایمان بنتا ہے۔ جب شک کی جڑ کٹ جائیں اور یقین سامنے کھڑا ہو تو یہی کامل ایمان ہے۔
مولا علی کا قول ہے کہ اگر دل کو یقین کا حال نصیب ہو جائے تو پھر صاحب یقین کی رات بھر کی نیند شک والے انسان کی ساری رات کی عبادت اور نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔ یقین والوں کا درجہ اور مقام یہ ہے کہ شک والے انسان یقین والوں کا ایک بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔
صبر کا مقام اور مدد
آپ نے کہا کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ایمان والوں کو صبر کرنے کا سبق سب سے پہلے دیا۔ یہ قرآنی اصول ہے کہ اگر خوشی اور فراغی ہو تو اس پر شکر ہوتا ہے۔ دوسری جانب جب مصیبت اور پریشانی لاحق ہو تو پھر صبر ہوتا ہے۔ مصیبتوں، مشکلات، آلام اور سب کچھ لٹ جانے میں صبر کرنا پڑتا ہے۔
ایمان والا ہونا اور صبر کرنا ان دونوں میں جوڑ یہ ہے کہ اللہ اپنے محبت کرنے والوں، دوستوں اور اپنے پیاروں کو ہی آزماتا ہے۔ کافروں، نفرت کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کو نہیں آزمایا جاتا۔ جب ایمان آئے گا تو وہاں مشکلات آئیں گی، جتنا ایمان مضبوط اور قوی ہوگا تو اتنی زیادہ مشکلات آئیں گی۔
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیم السلام کو آزمایا تو اپنے ہی بندے کو آگ میں ڈالا۔ ذبیحہ اسماعیل میں حضرت ابراہیم اور انکے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے صبر کا امتحان لیا۔ اس لیے لوگو اگر بندہ مومن ہو کر مشکلات کی آگ میں جل رہا ہے تو سجدہ شکر کرو کہ مولا نے اس کی محبت کو قبول کر لیا ہے۔
دوسری جانب صبر کا یہ مقام کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ نمازیوں کے ساتھ ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس سے صبر میں انقلابی ہونا اور محض نمازی بننے میں ثوابی ہونا ہے۔
صحابہ کرام اور شہدا کا رتبہ
جنگ احد میں سات سو صحابہ میں سے ستر شہیر ہوئے۔ حضور نے ستر شہداء میں سے کسی ایک کا بھی جنازہ نہی پڑھا۔ کیوں نہیں پڑھا کیونکہ اللہ نے فرما دیا کہ ان کو مردہ نہ ہو، یہ زندہ ہیں، جن کا تمہیں شعور نہیں۔
مولا علی شیر خدا اور مقام صبر
حضرت سیدنا علی المرتضی مولا علی شیر خدا کا ایک دن بھی سکون سے نہیں گزرا۔ آپ نے خلافت سنبھالی ہی تھی کہ جنگ جمل ہو جاتی ہے۔ دونوں طرف صحابہ کرام ہیں۔ سیدنا عثمان غنی کو شہید کرنے والوں نے فتنے کی آگ جلا دی تھی۔ اس دور میں اہل بصرہ و کوفہ سے دس ہزار صحابہ و تابعین شہید ہوئے۔ آپ کو مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔
اسلام کی بقاء اور حق کی خاطر جنگ صفین میں ستر ہزار صحابہ و تابعین شہید ہوئے۔ پچیس ہزار صحابہ مولا علی کے لشکر اور پنتالیس ہزار دوسرے لشکر سے شہید ہو جاتے ہیں۔ آپ اندازا کریں کہ تدفین کہاں ہوتی ہوگی۔
ہرورہ کے مقام پر مخالفین نے مولا علی کیخلاف اجتماع کیا، وہاں سے خوارج بنے۔ مولا علی کے دور میں دہشت گردی کی ابتداء خوارج نے کی۔ جن کے سات گروہ بنے اور بارہ ہزار خارجیوں نے مسلح ہو کر بغاوت کر دی۔ آپ نے تین سال تک خوارج کیخلاف جنگ لڑی۔ 18 رمضان کو کوفہ میں مولا علی شیر خدا نماز فجر پڑھانے لگے تو خوارجی ابن ملجعم نے آپ نے حملہ کر دیا۔ آپ لہولہان ہو گئے، دو دن تک اسی حالت میں رہے اور پھر آج کے دن بیس رمضان المبارک کو دنیا سے کوچ کر گئے۔ یہ شہادت علی کا تسلسل تھا کہ پھر معرکہ کربلا بپا ہو جاتا ہے۔
دنیا کی کوئی طاقت انقلاب نہیں روک سکتی۔
خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے قرآنی فلسفہ انقلاب کے نقطہ کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ اندازا کریں کہ اللہ تعالی کو آقا علیہ السلام کے بعد روئے زمین پر مولا علی سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھے۔ لیکن سب سے زیادہ امتحان بھی ان کا لیا گیا اور وہ صبر کیساتھ حق پر قائم رہے۔
لوگو سن لو کہ جو لوگ یقین پر قائم رہتے ہیں تو یہ ان کی فتح یابی ہے۔ اس کے لیے آپ اپنے اندر ایمان کے ساتھ یقین پیدا کریں۔ حق کو قارون، ہامان، فرعون نہیں مٹا سکا۔ انقلاب اہل حق کا مقدر ہے۔ انہی کی فتح ہوگی، انقلاب آئے گا، دنیا کی کوئی طاقت انقلاب روک نہیں سکتی۔
جھلکیاں - پہلا دن
- شہراعتکاف میں معتکفین کی آمد کا سلسلہ صبح نو بجے سے شروع ہو گیا تھا
- اندرون سندھ اور کراچی سمیت ملک کے دور دراز علاقوں سے معتکف ایک روز قبل شہر اعتکاف پہنچے۔
- شدید گرمی اور حبس کے باوجود معتکفین کے لیے بہتر انتظامات کیے گئے ہیں۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف میں آمد سے قبل قدوۃ اولیاء کے مزار پر حاضری دی۔
- دربار غوثیہ پر حاضری کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے حجرہ اعتکاف تک پیدل گئے۔
- نماز مغرب کی امامت شیخ الاسلام نے خود کی اور تمام معتکفین کو باقاعدہ خوش آمدید کہا۔
- نماز عشاء اور تراویح کے بعد شب ساڑھے گیارہ بجے خطاب شروع ہوا اور دو بجے ختم ہوا۔
تبصرہ