رمضان المبارک میں معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے میں اللہ تعالی کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات رمضان پر عمل ہمارے لئے باعث رحمت ونجات ہے۔ انہی معمولات کی روشنی میں ہم اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ یاب ہو سکتے ہیں۔

صیام رمضان اور معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے۔ اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعا فرمانا

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔

عن انس بن مالک قال: کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اذا دخل رجب قال: اللهم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.

( مسند احمد بن حنبل‘ 1: 259)

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔‘‘

رمضان کا چاند دیکھنے پر خصوصی دعا

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر خصوصی دعا فرمایا کرتے تھے:

کان اذا رای هلال رمضان قال: هلال رشد و خير‘ هلال رشد و خير امنت بالذی خلقک.

(مصنف ابن ابی شيبه‘ 10: 400‘ رقم حديث: 9798.)

( المعجم الاوسط‘ 1: 212‘ رقم حديث: 313)

’’جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔‘‘

رمضان المبارک کو خوش آمدید کہنا

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال کرتے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالیہ انداز کے ذریعے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رمضان المبارک کے استقبال کے بارے میں پوچھ کر اس مہینے کی برکت کو مزید واضح کیا۔

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کرتے

ما تستقبلون؟ ماذا يستقبلکم؟ (ثلاث مرات)

(الترغيب والترهيب‘2: 105)

’’تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے۔ (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)۔‘‘

اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان الله يغفر فی اول ليلة من شهر رمضان اهل لکل هذه القبلة.

(الترغيب والترهيب‘ 2: 105)

’’تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘

روزے میں سحر ی و افطاری کا معمول

رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔

٭ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عن انس‘ قال قال: رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم تسحروا فان فی السحور برکة.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو‘ کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

(صحيح البخاری ‘1: 257‘ کتاب الصوم‘ باب برکة السحور من غير ايجاب ‘ رقم حديث: 1823 )

٭ ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فصل ما بين صيامنا و صيام اهل الکتٰب اکللة السحر.

(صحيح مسلم‘ کتاب الصيام‘ باب فضل السحور‘ رقم حديث: 1096)

’’حضرت ابوقیس نے حضرت عمرو بن العاص سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عن ابی سعيد الخدری قال قال: رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم السحور کله برکة فلا تدعوه.

(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)

’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔‘‘

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔

فان اللّٰه و ملائکته يصلون علی المستحرين.

(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)

’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل کرتے ہیں۔‘‘

روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو‘ خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔

برکت سے کیا مراد ہے؟

برکت سے مراد اجر عظیم ہے کیونکہ اس سے ایک تو سنت ادا ہوتی ہے اور دوسرا روزہ کے لئے قوت و طاقت مہیا ہوتی ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ عنہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

و اما البرکة التی فيه فظاهرة لانه يقوی علی الصيام و ينشط له و تحصل بسببه الرغبة فی الازدياء من الصيام.

’’سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

و قيل لانه يتضمن الاسقيقاظ‘ والذکر و الدعاء فی ذالک الوقت الشريف و قت تنزل الرحمة و قبول الدعاء و الاستغفار.

(شرح نووی)

’’اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔‘‘

٭ سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں‘ وہ فرماتے ہیں:

قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر.

(صحيح مسلم‘ 1: 350‘ کتاب الصيام‘ باب فضل السحور‘ رمق حديث : 1098.)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘

٭ اسی طرح دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اذا سمع النداء احدکم والاناء علی يده فلا يضعه حتی يقضی حاجته منه.

(سنن ابی داؤد‘ 1: 328‘ کتاب الصوم ‘ رقم حديث: 2350)

’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘

٭ حدیث قدسی ہے کہ:

قال اللّٰه تعالی احب عبادی الی اعجلهم فطراً.

(جامع الترمذی‘ 1 : 88‘ کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی تعجيل الافطار‘ رقم حديث : 700)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں‘‘۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔

سحری میں تاخیر

٭ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔

عن ابن عباس رضی الله عنه قال قال: رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم امرنا ان تعجل افطارنا نوخر سحورنا.

(السنن الکبری‘ 4: 238)

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عن سهل بن سعد رضی الله عنه‘ قال قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : لا تزال امتی علی سنتی ما لم تنتظر يفطرها النجوم.

(موارد الضمان: 891)

’’حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میری سنت پر اس وقت تک برابر قائم رہے گی‘ جب تک کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروں کا انتظار نہ کرنے لگے گی‘‘۔

آپ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا‘ جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔

حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے‘ مثلا اتباع سنت‘ یہود و نصاری کی مخالفت‘ عبادت پر قوت حاصل کرنا‘ آمادگی عمل کی زیادتی‘ بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے‘ اسکی مدافعت سحری میں کئی حقداروں اور محتاجوں کو شریک کر لینا‘ جو اس وقت میسر آ جاتے ہیں۔

علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ

علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے۔ لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں‘ بلکہ ختم ہی ہو کر رہ جائیں۔ اور یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس چیز سے روزہ افطار فرماتے تھے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اذا افطر احکم فليفطر علی تمر فانه برکة فان لم يجد فليفطر علی ماءٍ فانه طهور.

(جامع الترمذی‘ 1: 83‘ کتاب الزکوة‘ رقم حديث: 658)

’’جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔‘‘

ہمارے ہاں اکثر و بیشتر افطاری کے وقت عجیب مضحکہ خیز صورت نظر آتی ہے۔ یہ ہماری مجلسی زندگی کا خاصہ ہے‘ جو الا ماشاء اللہ افراتفری‘ بدنظمی اور ذہنی انتشار کی آئینہ دار ہے۔ اس کی ایک جھلک افطاری کے وقت بھی نظر آتی ہے۔ ادھر مغرب کی اذان بلند ہوئی‘ اس کے ساتھ ہی ایک ہنگامہ شروع ہو گیا اور افطاری کے لئے بھاگم دوڑ مچ گئی۔ کوئی جلدی سے کھانے کی طرف لپک رہا ہے اور کلی کر کے مسجد کی طرف بھاگ رہا ہے۔ موذن کے اذان سے فارغ ہونے کے فوراً بعد مغرب کی نماز کھڑی ہو گئی۔ اس افراتفری میں افطاری کرنے والوں میں سے کسی کو دوسری اور کسی کو آخری رکعت میں جماعت ملی۔ بدنظمی اور عدم توازن پر مبنی یہ صورت حال ہماری کج فہمی کی پیداوار ہے‘ ہم اپنی لاعلمی کی بنا پر نماز مغرب میں غیر ضروری عجلت کو روا گردانتے ہیں‘ حالانکہ نماز کا وقت اتنا تنگ بھی نہیں‘ جتنا ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دس پندرہ منٹ افطاری کے لئے دیں اور پھر اطمینان اور یکسوئی سے نماز مغرب باجماعت ادا کریں۔ اتنا وقفہ کرنے سے نماز مکروہ نہیں ہو گی۔ فقہی اعتبار سے نماز مغرب کا وقت گرما و سرما کے موسموں کے تفاوت کے پیش نظر سوا گھنٹے سے ڈیڑھ گھنٹے تک رہتا ہے۔ یہ اس کی آخری حد ہے اور اس کے بعد عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ لہذا مناسب اور احسن بات یہی ہے کہ چند منٹوں کے توقف کے بعد نماز مغرب کی جماعت کا اہتمام کیا جائے‘ تاکہ سب مسلمان آسانی سے شامل جماعت ہو سکیں۔

اسلام ایک سہل العمل دین ہے‘ جس میں ہر کس و ناکس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں‘ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی کم فہمی اور نادانی کے باعث شریعت کی عطا کردہ سہولتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور خواہ مخواہ مشقت اٹھاتے ہیں۔

معمول قیام رمضان

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا مبارک معمول رمضان کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ کھڑے رہنے اور نماز‘ تسبیح و تہلیل اور ذکر الہی میں محویت سے عبارت ہے۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے‘ اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا:

فمن صامه و قامه ايماناً و احتسابا خرج من ذنوبه کيوم ولدته امه

(سنن نسائی‘ 1:308‘ کتاب الصيام‘ رقم حديث: 2208)

’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے‘ جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا۔‘‘

اس ارشاد گرامی کی رو سے روزے کے آداب کی بجا آوری اور اس میں عبادت اور ذکر الٰہی کے لئے کھڑے رہنے سے انسان کے گناہ بارگاہ ایزدی کے عفو و کرم سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں‘ گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو ا ہو۔ رات کے قیام کے لئے جو محبوب عمل سنت نبوی سے ثابت ہے نماز تروایح ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔

تراویح کی شرعی حیثیت

نماز تراویح کا سنت مؤکدہ ہونا نصِ حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی ادا فرمائی۔ اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ کے ذیل میں آتا سے۔ بصورت دیگر موجودہ نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے‘ جس نے اجماعِ امت کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔

رمضان المبارک میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جتنا قیام تنہا اس مہینے کیا جاتا ہے‘ وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اسی مناسبت سے اسے قیامِ رمضان سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ منشاء ایزدی اس سے یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک میں راتوں کی زیادہ سے زیادہ ساعتیں اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ قیامِ رمضان کا تقاضا ذکر و استغفار کی کثرت اور ذوق و شوق سے عبادت اور یاد الہی میں انہماک و استغراق ہے۔ رمضان المبارک کی رات کی ہر ساعت اتنی فضیلت اور قدر و منزلت کی حامل ہے کہ ہمارے لئے اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔

معمول ختم قرآن

رمضان و قرآن میں گہرا باہمی ربط و تعلق پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.

(القرآن، البقرة‘ 2:185)

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار ختمِ قرآن کا معمول تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام سادہ اور فطرت سے ہم آہنگ دین ہے اور تعلیماتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اسی فطری سادگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دین میں تنگی پیدا نہ کرو۔ اسی لئے ہر امتی کی سہولت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ صیام میں ایک بار قرآن پاک ختم کرنے کے معمول پر زندگی بھر کاربند رہے۔

حفاظ و قرآ کرام قرآن کریم کو اتنی مقدار میں نہ پڑھیں کہ ترتیل کے ساتھ تلاوت ممکن نہ رہے۔ قرآت میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ نماز تراویح کی جماعت میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس بناء پر قرآت کو اتنا طول دینا ہرگز مناسب نہیں‘ جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ صرف اتنی مقدار پر کفایت کی جائے کہ ہر شخص اطمینان و سکون کے ساتھ نماز تراویح کے دوران قرآت کو سن سکے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دوران ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسب دستور اس مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے اور مجھے حافظ قرآن ہونے کے پیش نظر زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن‘ پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی:

أقراه فی کل سبع.

(مسند احمد بن حنبل ‘ 2:162)

’’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘

اس سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک ایک دن میں قرآن مجید کے شبینے کرانے کا رواج صریحاً خلاف سنت ہے۔

بہرحال اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے ‘ لیکن اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کی نشست و برخاست اور مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں‘ نہ کہ رفتار اتنی تیز ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔

دوران رمضان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام کے دورہ ختم قرآن کا معمول

صحیحین کی متفق علیہ حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں رات کے وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے۔ جہاں باری باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت فرماتی۔ یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا‘ یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ معمول کے برعکس دو مرتبہ قرآن پاک کا دور جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں فرمایا۔ حفاظ و قرآء کرام کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوران تراویح ہر رمضان میں قرآت اور سماعت کا فریضہ ادا کر کے بیک وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

معمول تہجد

رمضان المبارک کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کی ادائیگی کے بارے میں معمول مبارک یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے‘ جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عليکم بقيام الليل فانه داب الصالحين قبلکم

(سنن الترمذی‘2: 194‘ کتاب الدعوات‘ رقم حديث : 3549)

’’تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے صالحین کا یہ عمل رہا ہے۔‘‘

فضائل نماز تہجد

نماز تہجد تمام نفلی نمازوں میں افضلیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

شرف المومن صلاته بالليل و استغناؤه فی ايدن الناس.

(سلسله الاحاديث الصحيحة‘ 4: 526‘ رقم حديث: 1903)

’’مومن کی بزرگی قیام اللیل میں ہے اور عزت لوگوں سے استغناء میں ہے۔‘‘

نماز تہجد میں مداومت اختیار کرنے سے بندہ اپنے رب کی نظر میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے کہ اسے عزت و وقار اور شانِ استغناء نصیب ہوتی ہے‘ جس کے صلے میں اسے دنیا میں کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور اس کی جبین نیاز آستانہ خداوندی کے سوا اور کسی در پر نہیں جھکتی۔ بندہ جب اپنے رب سے تعلق آشنائی محکم و پختہ تر کر لیتا ہے تو اس کی زندگی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی عملی تفسیر بن جاتی ہے :

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

راتوں کی تنہائی میں خدا سے راز و نیاز اور اس کے آگے گڑگڑا کر تضرع و زاری کے ساتھ دعائیں مانگنے سے بندہ دنیا سے مستغنی ہو جاتا ہے اور کسی فرعون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے شب زندہ دار اور نماز تہجد کی خاطر قیام اللیل کرنے والوں کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

عن ابن عباس رضی الله عنه‘ قال: قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : اشراف امتی حملة القرآن و اصحاب الليل.

(شعب الايمان‘ 2: 557 ‘ رقم حديث: 2703)

’’میری امت کے برگزیدہ افراد وہ ہیں جو قرآن کو (اپنے سینوں میں) اٹھائے ہوئے ہیں اور شب بیداری کرنے والے ہیں۔‘‘

امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ پاک باز اور قدسی صفات مردان باخدا ہیں‘ جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا.

(القرآن، المزمل‘ 73 : 6)

’’بیشک رات کا اٹھنا نفس کو سختی سے روندتا ہے اور (وقت دعا دل و زبان کی یکسانیت کے ساتھ) سیدھی بات نکلتی ہے۔‘‘

ان نفوس قدسیہ کی راتیں یوں بسر ہوتی ہیں کہ ان کے پہلو شب کی خلوت میں بستروں سے الگ رہتے ہیں‘ جب دوسری خدائی خواب گراں کی لذتوں میں غلطاں ہوتی ہے‘ وہ اپنے رب کو منانے کے لئے اس کے حضور پیکر عجز و نیاز بنے گڑگڑا رہے ہوتے ہیں۔

رمضان المبارک کی راتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عشاء و تراویح ادا کرنے کے بعد سونے کے لئے تشریف لے جاتے‘ پھر رات کے کسی حصے میں نماز تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو بشمول وتر گیارہ رکعتیں نماز کی ادا فرماتے۔

نماز تہجد کے لئے نماز عشاء کے بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے‘ یہی عمل افضل و مستحب ہے‘ جو سنت صحابہ رضی اللہ عنہم اور سنت صالحین سلف سے ثابت ہے‘ بغیر نیند کے نماز تہجد کا ادا کرنا مکروہ ہے۔

حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کے بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں:

عن ابن عباس رضی الله عنه‘ قال قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : من صلی رکعتين بعد عشاء الاخرة يقرآ بفاتحة الکتاب مرة (قُلْ هُوْ اللّٰه اَحَدٌ) بنی اللّٰه له قصرين فی الجنة اهل الجنة.

(الدار المنثور‘6: 415)

( فضائل القرآن لابن الضريس: 116‘ رقم حديث: 270)

’’جو شخص آخر عشاء کے بعد دو رکعت اس طرح ادا کرے کہ ایک مرتبہ فاتحہ الکتاب اور بیس مرتبہ قل ھو اللّٰہ احد پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا‘ جن کا اہل جنت مشاہدہ کریں گے۔‘‘

کثرت صدقات و خیرات

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

فاذا لقيه جبريل عليه السلام کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة.

(صحيح البخاری‘ 1: 255‘ کتاب الصوم‘ رقم حديث:1803)

’’جب جبریل امین آ جاتے تو آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کر پاتی۔‘‘

حضرت جبریل علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام محبت لیکر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے۔ اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔

جس کا تذکرہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں۔

و فی هذا الحديث فوائد منها بيان عظيم جوده صلی الله عليه وآله وسلم و منها استحباب اکنار الجود فی رمضان و منها زياده الجود والخير عند ملاقاة الصالحين و عقب فراقهم للتآثر بلقائهم ومنها استحباب مدارسة القرآن.

(شرح نووی‘ 15:69)

اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں۔ مثلاً

(1) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جود و سخا کا بیان

(2) رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان۔

(3) نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات ہونے کا بیان۔

(4) نیک بندوں سے ملنے کے بعد ان کی ملاقات کی خوشی میں صدقہ و خیرات۔

(5) قران مجید کے شرح درس و تدریس کے لئے مدرس کے قیام کا جواز۔

معمول اعتکاف

رمضان المبارک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے‘ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔ لیکن جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومطلع کر دیا گیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے معمول اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

ان النبی کان يعتکف العشر الآواخر من رمضان حتی توفاه اللّٰه تعالیٰ.

(صحيح البخاری‘ 1: 271‘ کتاب الاعتکاف‘ رقم حديث: 1922)

’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔‘‘

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ آخری عشرہ کے علاوہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔

عن ابی سعيد الخدری رضی الله عنه قال: ان رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم اعتکف العشر الاول من رمضان ثم اعتکف العشر الاوسط فی قبة ترکية علی سدتها حصير قال: فاخذ الحصير بيده فنحاها فی ناحية القبة ثم اطلع راسه فکلم الناس فدنوا منه فقال: انی اعتکف العشر الاول التمس هذه الليلة ثم اعتکف العشر الاوسط ثم اتيت فقيل لی: انها فی العشر الآواخر فمن احب منکم ان يعتکف فليعتکف.

(صحيح لمسلم‘ 1: 370‘ کتاب الصيام‘ رقم حديث: 1167)

’’حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اعتکاف فرمایا‘ پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درمیانی عشرہ اعتکاف فرمایا اور یہ اعتکاف ایسے ترکی خیمہ میں تھا جس کے دروازے پر بطور پردہ چٹائی تھی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک ہاتھ سے پکڑ کر خیمہ کی طرف ہٹایا اور پھر اپنا سر اقدس نکال کر صحابہ کرام کو اپنے قریب آنے کے لئے فرمایا جب وہ قریب آ گئے تو فرمایا میں نے لیلۃ القدر کی تلاش میں پہلا عشرہ اعتکاف کیا‘ پھر میں نے درمیانی عشرہ اعتکاف کیا‘ پھر مجھے بتایا گیا کہ وہ آخری عشرہ میں ہے ۔ تم میں سے جو اعتکاف جاری رکھنا چاہتا ہے وہ اسے جاری رکھے۔‘‘

وصال مبارک کے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا:

عن ابی هريرة رضی الله عنه قال: کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يعتکف فی کل رمضان عشرة ايام‘ فلما کان العام الذی قبض فيه اعتکف عشرين يوماً.

(صحيح البخاری‘ 1: 272‘ کتاب اعتکاف ‘ رقم حديث: 1939)

’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن تک اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن تک معتکف رہے۔‘‘

اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کر کے خدا کی رضا کی تلاش میں گوشہ تنہائی اختیار کرتا ہے۔ صوفیاء کرام اور اولیاء کرام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی کر سکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کر سکیں۔

رمضان المبارک میں ہمارا معمول ۔۔۔ ایک لمحہ فکریہ

رمضان المبارک کی ہر ہر ساعت ہمارے لئے سعادتوں کی پیامبر اور خدائے ذوالجلال کی بے پایا رحمتوں کی نوید بن کر آتی ہے‘ لیکن کیا ہم ان سے مستفیض ہو کر اپنے لئے اخروی نجات اور کامیابی کا توشہ و سامان فراہم کرتے ہیں؟ کیا ہم اس ماہ مقدس کے شب و روز کے سعید لمحوں کو غنیمت جان کر اپنی عاقبت سنوارنے کا اہتمام کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچنا چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک کا حق کہاں تک ادا کر پاتے ہیں۔

ہمیں اپنا یہ معمول بنانا چاہئے کہ جب ہم سحری کے لئے بیدار ہوں تو باوضو ہو کر کچھ وقت نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے نکالیں اور پھر پورا ماہ اس کی پابندی کے لئے کوشاں رہیں۔ کیا بعید ہے کہ اس مشق سے ہماری نماز تہجد کی عادت مداومت اختیار کر جائے اور ہماری بقیہ زندگی میں تہجد کا معمول اس قدر راسخ ہو جائے کہ پھر اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہ ہو سکے۔

رمضان المبارک کو یہ شرف اور فضیلت حاصل ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد کے درمیان سونے کا وقفہ بھی شامل عبادت تصور کر لیا جاتا ہے۔ گویا اس مقدس اور مبارک مہینے کی ہر ہر ساعت فیوض و برکات کی حامل ہو کر نامہ اعمال میں بطور عبادت لکھ دی جاتی ہے۔

تبصرہ