تحریر: مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
(التوبه : 60)
’’بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo‘‘۔
قرآن کریم میں زکوۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے، احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوۃ دینے سے ادائیگی ہو جائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر۔ اب ان آٹھ مصارف کی ضروری وضاحت و تفصیل و تشریح بیان کی جاتی ہے۔
پہلا اور دوسرا مصرف : فقراء و مساکین
فقیر اور مسکین دونوں ہی اپنی مالی ضروریات کے لئے زکوۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف ہیں، فقیر، مسکین دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں۔ دونوں کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ مسکین، فقیر سے بڑھ کر خستہ حال ہوتا ہے۔ فقیر تنگ دست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں۔
(بدائع الصنائع ص 2 / 43، فتاوی عالمگیری 1 / 188)
تیسرا مصرف : والعاملین علیہا
وہ لوگ جو حکومت کی طرف سے زکوۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان سب کو زکوۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی۔ خواہ امیر ہوں خواہ غریب۔
انما يستحقه العامل انما يستحقه بطريق العمل لا بطريق الزکوة بدليل انه يعطی وان کان غنيا بالاجماع ولو کان ذلک صدقة لما حلت للغنی.
(بدائع الصناعئ 2 / 44، فتح القدير 2 / 204، تفسير کبير 16 / 115)
’’عامل جو زکوۃ لینے کا مستحق ہے، وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوۃ کی حیثیت سے، دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی اگرچہ وہ غنی و امیر ہو، اس پر امت کا اجماع ہے۔ اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا‘‘۔
اما اخذ ظلمة زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجزيات والمصادرات فالاصح انه يسقط جميع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق عليهم.
(فتاوی عالمگيری 1 / 190)
’’رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کا زکوۃ و عشر، خراج، جزیہ اور محصولات لینا، تو صحیح تر یہی ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کرلیں تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے‘‘۔
گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لئے بغیر سب ہڑپ کر جاتی ہے۔ اسی لئے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔
اموال ظاہرہ و اموال باطنہ
مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی، غلہ، مال تجارت وغیرہ اس کی زکوۃ حکومت وصول کرتی ہے۔ دوسرا، باطنی یا پوشیدہ مال، جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے۔
فی زمانہ چونکہ زکوۃ و عشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصولوں کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی۔ نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے، نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں۔ اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوۃ مناسب مصرف میں خود صرف کرتے ہیں، یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوۃ امراء سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کے لئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب و مسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو۔
چوتھا مصرف : مولفہ القلوب
زکوۃ و عشر کا چوتھا مصرف مولفہ قلوب ہیں۔ یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے۔ تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے تو ان کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہوگا اور بالآخر وہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو وقتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوۃ سے دیکر ان کو اسلام کا مطیع و فرمانبردار یا کم از کم بے ضرر دشمن بنا لیا جائے۔ ایسے لوگوں کو مال زکوۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولفہ قلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیئے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے۔
بعض ائمہ کرام (جیسے احناف) کا موقف یہ ہے کہ مولفہ قلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہیں کیا، پس معلوم ہوا کہ ا س مصرف کے سقوط پر اجماع صحابہ ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے لہذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے۔
بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہذا یہ مصرف بحال رہا۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی۔ پس حکم جاتا رہا۔
ہمارے نزدیک ’’تالیف قلب‘‘ کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں تھی آج بھی ضرورت ہے کہ اس فنڈ سے غریبوں کی مدد کرکے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے۔ امیروں اور دین پر ڈگمگاتے ہوئے لوگوں پر خرچ کرکے ان کو مخالفین اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے، نو مسلموں کی مالی اعانت کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دے کر اسلام پر کار بند کیا جائے۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کرکے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے۔ غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتیں اور ان کو مرتد کرتی ہیں، اسلام بھی ان پر مال خرچ کرکے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ عام مالدار مسلمانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ غیر مسلموں کو صرف وعظ و تلقین ہی نہ کریں بلکہ زکوۃ فنڈ سے ان کی مالی مدد کریں۔
صحابہ کرام کا اجماع اس با ت پر ہوا تھا کہ اس دور میں مولفہ قلوب کو کچھ دینے کی ضررت نہ رہی تھی۔ آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مولفہ قلوب کا مصرف پیدا کریں۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوۃ صرف کر سکتے ہیں۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوۃ صرف کریں اور اگر کوئی مد نہ ہو تو چھوڑ دیں۔ بیت المال میں مال جمع کرا دیں۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں، بلکہ علت نہ ہونے سے حکم ختم ہو گیا۔ جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم۔ حکم علت کے ساتھ رہا، ہمیشہ کے لئے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ۔ ۔ ۔ یہی معاملہ ہے مولفہ قلوب کا جہاں، جب ضرورت ہو صرف کریں اور ضرورت نہ ہو تو مت کریں۔
پانچواں مصرف : وفی الرقاب
’’گردنیں چھڑانے میں‘‘ اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا۔ کمزور، نادار اور پسماندہ انسانوں کو طاقت ور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی۔ جو مالک اپنے غلاموں، لونڈیوں کو بلامعاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے، ان کو مالی معاوضہ دے کر آزادی دلائی گئی۔ اسی طرح جو غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے تو وہ رقم مال زکوۃ سے دی جاسکتی ہے۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم و غاصب و کافر سے آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیں، اپنی آزادی اور اپنی آئندہ نسلوں کی آزادی و بقاء کی جنگ لڑنے والے ہیں، وہ محکوم مسلمان بھی مالی تعاون کے مستحق اور اس مصرف میں شامل ہیں۔
چھٹا مصرف : الغارمین
’’والغارمین‘‘ اور قرض داروں کو یعنی مال زکوۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جاسکتے ہیں۔
ساتواں مصرف : وفی سبیل اللہ
’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے مراد فی سبیل اللہ جہادکرنے والے مجاہدین مراد لئے ہیں۔ ۔ ۔ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں۔ ۔ ۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں۔ امام کاسانی حنفی نے فرمایا :
وفی سبيل الله عبارة عن جميع القرب فيدخل فيه کل من سعی فی طاعة الله و سبيل الخيرات اذا کان محتاجا.
(بدائع الصنائع ج 2 ص 45، تفسير روح المعانی ص 123 ج، 10)
’’فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام ہیں، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے۔ جب کہ (زکوۃ کا) حاجت مند ہو‘‘۔
بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں۔ ان پر زکوۃ صرف کی جا سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی۔ لہذا مجاہدین سے اگر عام معنی مراد لیا جائے تو وہ لوگ جو دین اسلام کی سربلندی کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جدوجہد فوجی میدان میں ہو، خواہ تعلیمی میدان میں خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں۔ جہاد کا مفہوم قتال و غزی سے عام ہے۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں، اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کئے جاسکتے ہیں۔
آٹھواں مصرف : مسافر
زکوۃ کا آٹھوں مصرف مسافر ہے، خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہوجائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی۔
المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه يعطی منها وان کان غنيا فی بلد..
(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 8 / 119)
’’اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل و اسباب، گھر، ٹھکانہ اور مال دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس کو مال زکوۃ سے دیا جائے گا۔ اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو‘‘۔
مسئلہ تملیک
زکوۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوۃ کا مالک بنا دیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہو جائے۔ اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوۃ کی ادائیگی کے لئے یہ شرط ہے۔
تبصرہ