شہر اعتکاف 2006ء : تیسرا دن

(شہر اعتکاف سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایم ایس پاکستانی)

تحریکِ منہاج القرآن کے زیر اہتمام حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اعتکاف

انوار و تجلیات اور روح پرور نظاروں میں قائم شہر اعتکاف میں طلوع ہونے والا آج کا دِن بھی معتکفین کے اجتماعی و انفرادی معمولات میں ختم ہوا۔ تاہم طاق رات کے باعث شہرِ اعتکاف میں رات گئے تک بھی دن کا سماں نظر آیا۔ نمازِ فجر کے بعد اجتماعی ذِکر اور خصوصی وظائف کے بعد معتکفین کی ایک بڑی تعداد مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی (رح) کے مزار کی طرف رُخ کر کے دعا مانگتی ہے۔ اس موقع پر یہ نظارہ روح پرور ہوتا ہے۔ نمازِ چاشت کی ادائیگی کے بعد معتکفین کے پاس آرام کے لئے صبح 6:30 بجے سے 1:00 بجے تک کا طویل وقت ہوتا ہے۔ تاہم اکثر معتکفین صبح 10:00 بجے ہی بیدار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے شہر اعتکاف میں صبح 10:00 بجے سے چہل پہل اور معتکفین کے انفرادی معمولات شروع ہو جاتے ہیں۔ آج معتکفین کے تربیتی حلقہ جات کا انعقاد ظہر کی نماز کے بعد کیا گیا۔ اسی دوران میں مسجد کے ہال میں تنظیمی عہدیداروں کی نشست بھی ہوئی۔ جس میں مرکزی ناظم یوتھ ساجد محمود بھٹی نے خطاب کیا۔ ظہر کی نماز کے بعد شعبہ جات کی تعارفی نشست ختم کر دی گئی اور نگرانی معمولات کمیٹی کے اراکین حلقہ جات کے انعقاد کے لئے متحرک نظر آئے۔

آج ظہر کی نماز کے دوران ایک نجی ٹی وی چینل کی ٹیم نے شہر اعتکاف کی خصوصی کوریج کی اور ڈاکومنٹری تیار کی۔ دوسری طرف خواتین کے شہرِ اعتکاف میں جیو ٹی وی نے خصوصی رپورٹ کے لئے کوریج کی۔ نمازِ عصر کے بعد مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی کی فقہی نشست معتکفین کے فقہی مسائل کے حل کے ساتھ اُن کی مقبول شخصیت کی وجہ سے بھی پُرہجوم ہوتی ہے۔ آج بھی مفتی صاحب نے اپنے روایتی انداز میں فقہی سوالات کے جواب دیئے۔

عصر کی نماز کے بعد منہاجینز کی شیخ الاسلام کے ساتھ خصوصی افطاری کے لئے شیخ الاسلام کے حجرہ کے باہر انتظام تھا، جس میں شریک سینکڑوں معتکف منہاجینز شریک ہوئے۔ شیخ الاسلام نے منہاجینز کی خدمات پر انہیں مبارک باد دی۔ اس موقع پر علی اکبر قادری الازہری کو PHD کی تکمیل پر شیخ الاسلام نے خصوصی شیلڈ دی۔

نماز مغرب کے بعد معتکفین کی ایک بڑی تعداد مسجد کے صحن میں اپنی اپنی صفوں میں بدستور بیٹھی رہتی ہے۔ آج بھی یہ منظر دیکھنے کو ملا۔ مسجد کے ہال میں نصف حصے پر معتکفین شیخ الاسلام کے خصوصی خطاب کے لئے مغرب کے بعد سے لے کر خطاب ختم ہونے تک ایک جگہ پر براجمان رہتے ہیں۔ آج عشاء کے قریب اس وقت ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جب معتکفین کی ایک بڑی تعداد نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے اپنے حلقوں میں جانا چاہتی تھی لیکن انتظامیہ نے اُنہیں روک دیا۔ ان معتکفین کا مؤقف تھا کہ ہم شیخ الاسلام کے خطاب کے لئے اپنی نوٹ بکس ساتھ لانا چاہتے ہیں۔ جب کہ انتظامیہ کا کہنا تھا اس بہانے حلقوں میں جانے والے وہیں آرام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے شیڈول متاثر ہوتا ہے۔

نماز تراویح آج شب 9:00 بجے ختم ہو گئی۔ اس کے بعد شیخ الاسلام نے اپنا خصوصی خطاب شروع کیا۔ انہوں نے ’’آخرت‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قیامت موت سے شروع ہو جاتی ہے۔ موت قیامت کا مرحلہ اولی ہے۔ اگر ہم اس مرحلہ میں کامیاب ہو گئے تو قیامت کا فیصلہ اسی موت پر ہی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے بُرے اعمال، دُنیا کے لالچ اور مال و متاع کی حرص نے ہمیں برباد کر دیا۔ آج ہم نے موت کی فکر نہ کی تو پھر ہمیں اس بڑی قیامت سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ ہمیں قیامت اور قبر کے اندھیروں کو شب کے سجدوں، عبادت اور گریہ و زاری سے ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موت کے بعد انسان کو جس قبر میں جانا ہے اُس کی دو حالتیں ہیں۔ قبر نیک مؤمن کے لئے جنت کا ٹکڑا اور بدکار کے لئے دوزخ کا گڑھا ہے۔ نیک لوگ دُنیا میں ہی قبر کو جنت کا ٹکڑا بنا لیتے ہیں۔ اس موقع پر آپ نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’مومن کی روح کے لئے 7 آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کی روح اﷲ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے۔ قبر کے سوالات کا مرحلہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔انہوں نے دعوت فکر دیتے ہوئے کہا کہ لوگو! ہم اس دُنیا کے دھوکے، فریب اور لالچ میں مبتلا ہیں۔ یہ عارضی ٹھکانہ ہے۔ انسان اس کو راحت اور آرام کدہ سمجھ بیٹھا ہے۔ اصل راحت آخرت میں ہے۔ یہ وہ راحت ہے جب مومن کی روح کا 70 ہزار فرشتے ملاء اعلیٰ پر استقبال کریں گے۔ مومن کی قبر کو 70 گز لمبائی اور چوڑائی میں وسعت دی جائے گی۔ اس کی قبر ’’روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘ (جنت کے باغوں میں سے ایک باغ) ہو گی۔

شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ آج ہمیں قبر اور آخرت میں کامیابی کے لئے اپنے گناہوں سے معافی مانگنا ہے۔ ہم نے اﷲ تعالیٰ سے بخشش کی اُمید لگا رکھی ہے۔ لیکن عملاً اس کی تیاری نہیں کی۔ دوسری طرف ایک طبقہ نے اپنے اعمال پر زور دیا اور اﷲ کی رحمت و بخشش کی اُمید کو ختم کر دیا۔ یہ دونوں طریق غلط ہیں۔ آج ہمیں اﷲ کی بخشش، مغفرت اور رحمت کے ساتھ اپنے اعمال کی بھی تیاری کرنا ہو گی۔ اُنہوں نے کہا کہ نیک اعمال کے بعد اﷲ سے بخشش و مغفرت کی اُمید رکھنا جائز ہے۔ ورنہ اﷲ کے عدل کے سامنے ہم بے بس ہوں گے۔ ہمیں دُنیاداری، مال و متاع کی حرص، لالچ، تفاخر اور غرور و تکبر نے غافل کر دیا ہے۔ لوگو! آؤ آج ہم موت اور قبر کی فکر کریں۔ جو قبر کے امتحان میں کامیاب ہو گیا اس کو قیامت کی کوئی فکر نہیں ہے۔

شیخ الاسلام کے خصوصی خطاب کے بعد طاق رات میں خصوصی محفل قرأت و نعت منعقد ہوئی۔ یہاں الحاج اختر حسین قریشی، محمد افضل نوشاہی، قاسم حسان اور شہزاد برادران نے ثناء خوانی کی۔ علامہ غلام ربانی تیمور اور صاحبزادہ ظہیر احمد نقشبندی کی خوبصورت نقابت سے بھی سامعین محظوظ ہوئے۔ یوں آج شب 2:00 بجے باقاعدہ معمولات ختم ہو گئے۔

تیسرے دن کی جھلکیاں

  • نمازِ فجر کی ادائیگی سے قبل رانا محمد ادریس نے معتکفین کی مشترکہ اتفاق رائے سے تربیتی حلقہ جات کا وقت 11:30 بجے کی بجائے نماز ظہر کے بعد مقرر کرنے کا اعلان کیا۔
  • بعد ازاں مرکزی شعبہ جات کی تعارفی نشست بھی اسی وقت میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
  • سیل سنٹر پر جدید کمپیوٹرائزڈ نظام کے باوجود بھی بھاری رش دیکھنے میں آیا۔
  • نمازِ تراویح ختم ہوئی تو معتکفین کی بڑی تعداد صفیں توڑتے ہوئے مرکزی سٹیج کے سامنے جمع ہو گئی۔
  • مرکزی سٹیج کے سامنے معزز مہمانوں کے ساتھ گوشۂ دور کے معتکفین کو خصوصی نشستیں دی گئیں۔
  • سٹیج کے قریب مختص جگہ سے سیکورٹی اہلکار بار بار غیر متعلقہ لوگوں کو اُٹھاتے رہے۔
  • منہاج پروڈکشنز نے آج کے خطاب کے لئے خصوصی طور پر خوبصورت نیا سیٹ لگایا، جس کا رنگ گہرا نیلا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز کے خطاب کے لئے بیک ڈراپ سیٹ الگ تھا۔
  • شیخ الاسلام کے خطاب سے قبل منہاج نعت کونسل نے نعت پڑھی۔
  • شیخ الاسلام جب 9:20 پر خطاب کے لئے سٹیج پر تشریف لائے تو معتکفین نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر دیگر نعروں کے ساتھ ’’مرشد مرشد طاہر طاہر‘‘ کا خصوصی نعرہ بھی لگایا گیا۔
  • شیخ الاسلام آج نمازِ ظہر کے لئے مسجد تشریف نہیں لائے، اُنہوں نے اپنے حجرہ میں نماز ادا کی۔
  • منہاجینز کی شیخ الاسلام کے ساتھ افطار پارٹی، چھوٹے بچوں کے علاوہ بعض تحریکی احباب بھی موجود تھے۔
  • رانا محمد ادریس قادری نے ظہر کی نماز سے قبل معتکفین کو بتایا کہ مدینہ طیبہ روضۃ الرسول کے کلید بردار شیخ ہاشم البدر نے شیخ الاسلام کو ’’سیف الاسلام‘‘ کا لقب دیا ہے۔
  • ملک کے نامور قاری پروفیسر مشتاق انور نے بھی آج کی نشست میں خصوصی شرکت کی، اُنہوں نے تلاوت کلام پاک کا شرف بھی حاصل کیا۔
  • پروفیسر قاری مشتاق انور نے جب تلاوت ختم کی تو شیخ الاسلام نے انہیں اپنے نشست سے اُٹھ کر گلے لگایا۔ اور اُن کو اعتکاف کے بقیہ تمام دنوں روزانہ تلاوت کرنے کی دعوت دی۔
  • ’’جو قرآن مجید حزن اور لَے کے ساتھ پڑھتا ہے وہ میرا تو سردار ہے، میں اس کے جوتے بھی اُٹھانے کو تیار ہوں۔‘‘ شیخ الاسلام نے قاری مشتاق انور کی تلاوت سن کر یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
  • قاری العینی کے بارے شیخ الاسلام نے ان کے والد پروفیسر محمد افضل کانجو کو فرمایا کہ یہ عمر بھر دُنیا میں کہیں بھی نہیں جائیں گے۔ اُن کی شادی کے انتظامات سے لے کر تمام حاجات ہم پوری کریں گے۔ یہ ساری زندگی قرآن کی تلاوت ہمیں سنائیں گے۔
  • شیخ الاسلام نے اپنا باقاعدہ خطاب پونے دس بجے شروع کیا۔ تو آپ نے موضوع سے قبل سورہ آل عمران سے تین منتخب آیات پر اظہار خیال کیا۔
  • شیخ الحدیث علامہ محمد معراج الاسلام کو دیکھ کر فرمایا کہ بعض لوگوں کو دیکھ کر ہمارا دل خوش رہتا ہے۔
  • شہر اعتکاف میں گزشتہ 2 روز کے موسم کے برعکس آج گرمی قدرے زیادہ تھی۔
  • ’’میں نے حسن اور حسین کو کئی بار یہ کہا ہے کہ تم میرے بیٹے اس وقت ہو جب تک میرے مشن پر ہو۔‘‘ شیخ الاسلام نے دورانِ خطاب یہ جملہ کہا۔
  • خطاب ٹھیک 12:00 بجے ختم ہو گیا۔
  • گوشۂ درود کا حلقہ عارضی طور پر ’’آغوش‘‘ کی عمارت میں قائم کیا گیا ہے۔
  • ہزار ہا معتکفین کے لئے شہر اعتکاف کی بلڈنگ سے باہر واسا کے علاقے میں عارضی ’’شہر اعتکاف‘‘ بسایا گیا۔ جہاں ٹینٹوں کے نیچے رہائش کا انتظام اور عارضی ٹوائلٹس بنائے ہیں۔
  • ’’آغوش‘‘ کی چھت پر لگائے گئے ٹینٹوں میں بھی معتکفین کی بڑی تعداد مقیم ہے۔

تبصرہ