شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے شہر اعتکاف کی تیسری نشست میں ’’خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ کے موضوع پر ہزاروں معتکفین و معتکفات سے خطاب کیا۔
نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1875ء میں یہ تحقیق سامنے آئی کہ پہاڑ جتنے زمین کے اوپر ہیں، اُتنے ہی زمین کے نیچے ہوتے ہیں۔ یوں سائنس دانوں یہ 150 سال قبل یہ آگہی دنیا کو دی۔ جب کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل قرآن مجید کے ذریعے یہ معلومات انسانیت کو فراہم کر دی تھیں۔ آج سے ساڑھے 14 صدیاں قبل جہالت بھرے دور میں نازل ہونے والے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام سائنسی حقائق بیان کردیے تھے جو آج سائنسی تحقیقی سے معلوم ہو رہے ہیں۔ یہی اس بات کی دلیل ہیں کہ خدا کو مانا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھنا اور اس کی آیات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ خدا، دین اور حق کا راستہ اُن سے معلوم کرنا چاہتے ہیں جو خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ ایسے ہزاروں سوالات ہیں جن کی خبر سائنس اور انسانیت کو آج ملی ہیں جب کہ قرآن مجید ان کا واضح تذکرہ ساڑھے 14 صدیاں قبل کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کے وجود سے انکار کرنے والوں سے یہ سوالات لازمی کریں کہ جو علم سائنس کو گزشتہ دو تین صدیوں میں حاصل ہوا، وہ آج سے 1450 سال قبل قرآن کو کیسے معلوم ہوا اور قرآن نے کیسے بیان کیا؟ سائنس آج زمین کی گردش ثابت کررہی ہے، جب کہ قرآن نے زمین کی گردش کا علم 1,450 سال قبل انسانیت کو عطا کر دیا تھا۔ جن کو حق کی تلاش ہوتی ہے وہ سب سے پہلے اُس جگہ جاتے ہیں جہاں حق ملتا ہے۔ پھر اُس پر غور و فکر کرتے ہیں اور سوچ اور تدبر کے ساتھ حق تلاش کرتے ہیں تو اُنہیں حق مل جاتا ہے۔ خدا نے کائنات کے پھیلاؤ کا تصوّر حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے اِنسانیت کو اُس کو وقت دیا جب عالمِ عرب میں ہر سُو جہالت کے ڈیرے تھے؛ جب کہ سائنس یہ باتیں 1450 سال بعد لوگوں کو بتا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عاشق کی علامت کیا ہے؟، عاشق وہ ہوتا ہے جو کسی حال میں محبوب کو نہ بھولے۔ نماز، محبوبِ حقیقی سے ملاقات ہوتی ہے۔ اگر فرض نماز میں غفلت برتی تو کسی اور کام کی کوئی وُقعت و حیثیت نہیں۔
تبصرہ