منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہر اعتکاف میں جمعۃ الوداع کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علم کے جمال و کمال اور روح کا نام ادب ہے۔ قیامت کے روز اولاد کے بارے مین سوال کیا جائے گا کہ اے بندے یہ تو بتا کہ تونے اپنی اولاد کو کیا ادب سکھایا اور کیا علم سکھایا۔ عالم کو پہچاننا ہو تو اُس میں ادب دیکھیں۔ ادب والا ہے تو عالم ہے، بے ادب ہے تو جاہل ہے۔ روزِ قیامت اولاد کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اے بندے! بتا کہ تو نے اپنی اولاد کو کیا ادب سکھایا اور کیا علم سکھایا؟ فرمانِ حضور شیخ الاسلام: وہ عالم ہی نہیں جس میں ادب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں: بحمداللہ! یہ ہماری خوش بختی ہے کہ اس سے قبل کہ ادب سکھانے والے اساتذہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جاتے، ہم نے ان سے ادب سیکھ لیا ہے۔ امام عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں: بحمداللہ! یہ ہماری خوش بختی ہے کہ اس سے قبل کہ ادب سکھانے والے اساتذہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جاتے، ہم نے ان سے ادب سیکھ لیا ہے۔ امام عبد اللہ بن المبارک نے فرمایا ہے: ’حسنِ ادب‘ (فضیلت کے اعتبار سے) دین کا دو تہائی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ دینی تعلیمات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ علامہ ابو حفص الحداد نے فرمایا ہے: تصوف کی ’روح‘ حسنِ ادب ہے، جس میں ہر لمحہ کے لیے ایک ضابطۂِ اخلاق، ہر حالت کے لیے قانونی ضابطہ اور ہر مقام کے لیے ایک قاعدہ مقرر ہے۔ ہر شخص جو وقت کے ساتھ حسنِ ادب کی پابندی کرتا ہے وہ جواں مردی کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو حسنِ ادب سے محروم ہو جائے وہ جس کو قربت سمجھتا ہے دراصل وہ بُعد اور دوری ہے، اور جس (عمل کو وہ شرفِ) قبولیت سے ہم کنار سمجھتا ہے وہ دھتکار دیا جاتا ہے۔ صوفیاء کرام کا ادب یہ تھا کہ ہمیشہ موت کو سامنے رکھتے اور کم سے کم آرزوئیں رکھتے۔ صوفیاء کے آداب میں سے تھا کہ وہ ہر وقت اپنے عیبوں پر نظر رکھتے اور کبھی مولا سے اپنی آنکھوں کو غافل نہں ہونے دیتے تھے۔ گویا جو دم غافل سو دم کافر كا حقیقی مصداق تھے۔ حضور قدوۃ الاولیاء کا زندگی بھر معمول رہا کہ جب بھی لاہور تشریف لاتے سب سے پہلے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری کی بارگاہ میں جا کر سلام پیش کرتے۔
نمازِ جمعہ کی دعا صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کروائی، نماز میں ہزاروں معتکفین اور عامۃ الناس کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
تبصرہ