شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شہرِ اعتکاف کی آٹھویں نشست سے ’’معاشی تعاوُن اور معاشرتی توازُن‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب
آٹھویں نشست میں ہزاروں معتکفین، علماء و مشائخ، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نظام میں کسی طرح کی خیر نہیں۔ اس نظام کو بنانے والے، چلانے والے اور تحفظ فراہم کرنے والے سارے لوگ وہی ہیں جو خود کرپٹ اور بدقماش ہیں۔ افسوس! پاکستان میں حرام خوری، حرام نوشی اور حرام کاری کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں کرپشن کو اب گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ کلچر بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اِسلام نے معاشرے کے تمام طبقات میں اموال، دولت اور وسائل یکساں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِسلام کا معاشی اُصول یہ ہے کہ معاشی تنگی یا معاشی محرومی میں مبتلا ایک فرد بھی کفالت سے محروم نہ رہے۔ اللہ اور اُس کے رسول مکرم ﷺ کے احکامات کی رُو سے ہمارے ملک میں رائج معاشی نظام حرام ہے کیوں کہ یہ تقسیمِ دولت کے بجائے اِرتکازِ دولت کرتا ہے۔ جو معاشی نظام معاشرے کے تمام طبقات کی کفالت کا اہتمام نہیں کرتا، وہ اِسلامی معاشی نظام نہیں ہے۔ حق اور اِحسان میں فرق ہوتا ہے۔ اِحسان بطور فضل دیا جاتا ہے۔
اِحسان دوسرے کا حق نہیں ہوتا بلکہ اپنے حق میں سے دوسرے کو دیا جاتا ہے۔ اگر دولت معاشرے کے 15 سے 20 فیصد لوگوں کے قبضے میں رہے اور معاشرے کے 80 سے 85 فیصد اَفراد اِس سے محروم ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات بھی پورے نہیں کر پا رہے، تو اِس صورت حال کو اللہ رب العزت کی طرف سے قرآن میں عدل کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی سے بصیرت چھین لیتا ہے تو اُسے معاشرے میں کثرت کے ساتھ موجود غربت و اَفلاس نظر نہیں آتی۔ میں نے MNAs کی جانب سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے میڈیکل بلز دیکھے ہیں۔ ایک پارٹی کے سربراہ نے سر درد کی گولی پیراسیٹامول کی گولیوں کا بھی بل وصول کیا۔ پاکستان میں ہوٹلوں، ریستورانوں اور شاپنگ ایریاز میں کثرت سے پائے جانے والے لوگ کل آبادی کا فقط 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ ناجائز اور ظالمانہ نظام کی وجہ سے لوئر کلاسز کی دولت، وسائل اور حقوق بھی غاصب طبقات کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔
اِسلام نے جا بجا معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق اُنہیں لوٹانے کا حکم فرمایا ہے۔ الحدیث: ہمارے اَموال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی محروموں اور غریبوں کا حق ہے۔ (جو زکوٰۃ کے علاوہ یہ حق ادا نہیں کرتا، وہ جہنم کی آگ جمع کر رہا ہے۔) اسلام نے غنی اور مال دار لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اِس حد تک خرچ کریں کہ غرباء اور ضرورت مندوں کی تمام ضروریات پوری ہوجائیں۔ بدقسمتی سے اسمبلیوں میں براجمان نمائندوں کی اکثریت کی ترجیحات کبھی عوام کی فلاح و بہبود نہیں رہی۔ ان کا کل مطمعِ نظر قومی خزانے کو لوٹنا اور بے رحمی سے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ حرص و ہوس، مال و دولت کی لوٹ مار اور حرام خوری نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ ہمارا دین کا پورا تصور رسوماتی بن گیا ہے، اور مخصوص مراسم کی ادائیگی کے ذریعے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دینی ذمہ داری پوری ہوگئی۔
جس معاشرے میں روٹی کے لیے عزت بکنے لگے اور لوگ حرام کاری میں مبتلا ہونے لگیں، اُس معاشرے کو ہلاکت اور تباہی سے کون روک سکتا ہے؟ بد قسمتی سے ہمارا دین چند مخصوص مواقع اور مراسم تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ربیع الاول، محرم الحرام اور گیارھویں شریف کے موقع پر محافل کر لینے سے دین کا مکمل حق ادا نہیں ہو جاتا۔ یہ اَعمال فقط دین کا ایک جزو ہیں۔ مال کمانے کے لیے بندہ تکالیف اٹھاتا اور شب و روز محنت کرتا ہے، کیوں کہ وہ مال و دولت سے حد درجہ محبت کرتا ہے۔ محبت وہ شے جسے حاصل کرنے کے لیے بندہ جتنی تکلیف بھی اٹھائے، وہ اسے تکلیف لگتی ہی نہیں بلکہ راحت لگتی ہے۔
تبصرہ