مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سوال : قرآن وسنت کے حوالے سے اعتکاف کی شرعی حیثیت کیا ہے وضاحت فرمائیے اور یہ بھی بتائیے کہ اجتماعی طور پر اعتکاف بیٹھنے کی بابت فقہاء کرام کا کیا مؤقف ہے۔ (محمد مشتاق۔ لاہور)
جواب : سب سے پہلے اعتکاف کی لغوی تحقیق ذیل میں پیش کی جارہی ہے جس کا سمجھنانہایت ضروری ہے۔
لغوی تحقیق : يقال لمن لازم المسجد و اقام علی العبادة
فيه، عاکف و معتکف۔
(لسان العرب ابن منظور : 3409)
جو کوئی مسجد میں ڈیرا لگالے اور عبادت میں مصروف رہے اُسے عاکف اور معتکف کہتے ہیں یعنی اعتکاف کرنے والا۔
٭ کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس کی تعظیم کی خاطر اس سے لگ جانا۔ شریعت میں اعتکاف کا مطلب ہے اپنے آپ کو خدا کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے مسجد میں مقید کردینا۔،، (مفردات راغب، ص342)
قرآن کریم کی روشنی میں
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِO(البقرہ، 2 : 125 )
’’اور یاد کرو ! جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز اور جائے امن بنایا اور بنالو ابراہیم کے کھڑے ہو نے کی جگہ کو جائے نماز اور ہم نے ابراہیم واسماعیل کو تاکید کی کہ میرا گھر پاک رکھو!طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کیلئے۔،،
وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ.
’’ اُن (بیویوں) کے قریب قربت کیلئے مت جاؤ! جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو۔‘‘
(البقره، 2 : 187)
حدیثِ پاک کی روشنی میں
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:
’’ ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان يعتکف العشرالا واخرمن رمضان حتي توفاه الله ثم اعتکف ازواجه من بعده،،
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف بیٹھتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کووفات دی۔ پھر آپ کے بعد (بھی) آپ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف بیٹھتی رہیں۔،، (بخاری و مسلم)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور علیہ السلام اعتکاف بیٹھے ہوتے۔
ادنی الیّ رأسه وهو فی المسجد فارجله وکان لا يدخل البيت الا لحاجة الانسان
’’میری طرف اپنا سر مبارک قریب کرتے اور خود مسجد میں تشریف فرما ہوتے پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنگھی کرتی اور انسانی ضرورت کے بغیر گھر تشریف نہ لاتے،،۔ (متفق علیہ )
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی
کنت نذرت فی الجاهلية ان اعتکف ليلة فی المسجد الحرام قال فاوف بنذرک
(متفق علیہ)
’’میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی تھی، فرمایا تو اپنی نذر پوری کر،،۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبار ک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے، ایک سال نہ بیٹھے،۔
’’ فلما کان العام المقبل اعتکف عشرين،،
اگلا سال آیا تو بیس دن اعتکاف فرمایا،، (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
’’کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم : يعود المريض وهو معتکف فيمر کما هو فلا يعرج يسال عنه،، (ابوداؤد، ابن ماجه)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ اعتکاف میں بیمار کی بیمار پرسی گذرتے گذرتے فرماتے، ٹھہرا نہیں کرتے تھے،،۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ اعتکاف والے کیلئے مسنون یہ ہے کہ بیمار کی بیمار پرسی (ٹھہر کر) نہ کرے، جنازے پر نہ جائے، بیوی کو شہوت سے نہ چھوے، نہ اس سے مباشرت کرے اور ضروری حاجت کے علاوہ باہر نہ نکلے اور روزے کے بغیر اعتکاف (مسنون) نہیں اور مسجدِ جماعت کے سوا کوئی اعتکاف نہیں۔،، (ابوداؤد)
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف بیٹھتے تو آپ کیلئے ستون توبہ (جہاں ابو لبابہ کی توبہ قبول ہوئی تھی) کے پیچھے بستر بچھا دیا جاتا۔ ،، (ابن ماجہ)
اعتکاف میں بلا ضرورت مسجد سے باہر جانا
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک معتکف ایک لمحہ کیلئے بھی بلاضرورت مسجد سے باہر نکلا تو اس کا اعتکاف جاتا رہا۔ قیاس یہی ہے کیونکہ اعتکاف مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے۔
والخروج مفوّت له فکان القليل والکثير سواء کالا کل فی الصوم والحدث فی الطهارة
’’اور باہر نکلنا اسے ختم کر دیتا ہے، اس میں کم اور زیادہ برابر ہے۔ جیسے روزے میں کھانا اور وضو میں حدث،،۔
صاحبین نے کہا جب تک مسجد سے باہر آدھے دن سے زائد وقت نہ گزرے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔،، اور استحسان کا تقاضا یہی ہے۔،، (ہدایہ مع فتح القدیر، 2 : 311)
وصعود المئذنة ان کان بابها من خارج المسجد لا يفسد فی ظاهر الرواية.
اذان کے چبوترے کا دروازہ اگر مسجد سے باہر ہے اور معتکف اذان دینے کیلئے باہر سے ہو کر مینار پر چڑ ھ گیا تو ظاہر روایت کے مطابق اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔،، (فتح القدیر، 2 : 311)
’’یخرج لادا ء الشھا دۃ،، گواہی دینے کیلئے بھی جائے تو اعتکاف سے باہر جاسکتا ہے۔ (ایضاً)
ضرورت کے پیش نظرکچھ وقت کیلئے باہر نکلنا
فعلم ان القليل عفو فجعلنا الفاصل بينه وبين الکثير اقل من اکثر اليوم اوالليلة لان مقابل الاکثر يکون قليلا بالنسبة اليه.
تو معلوم ہوا کہ تھوڑے وقت کیلئے معتکف کا مسجد سے نکلنا معاف ہے۔ پس ہم نے کم اور زیادہ میں فاصلہ یہ رکھا ہے کہ رات یا دن کے زیادہ حصہ سے کم ہے تو کم اور زائد ہے تو زائد۔ اسلئے کہ زیادہ کے مقابلہ میں اس کی نسبت سے کم ہی آتا ہے۔ (فتح القدیر، 2 : 311)
مبسوط میں ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول قیاس سے قریب تر اور صاحبین کا قول رعایت و وسعت سے قریب تر ہے۔ امام محمد نے فرمایا تھوڑے وقت کیلئے معتکف کا مسجد سے نکلنا معاف ہے تا کہ حرج وتنگی پیدا نہ ہو۔ خواہ اس کی زیادہ ضرورت نہ پڑے مثلاً کوئی شخص قضائے حاجت کیلئے نکلتا ہے تواسے تیز چلنے کا حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ آرام و سکون سے چل سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تھوڑے وقت کیلئے باہر نکلنا معاف ہے ہاں زیادہ نکلنا معاف نہیں۔ پس ہم نے حد فاضل رات اور دن کا اکثرحصہ مقرر کر دیا۔ جیسا کہ ہم نے رمضان کے روزے کی نیت کے بارے میں کہا۔ پھر ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا طواف کا رکن مسجد میں ٹھہرنا ہے اور باہر نکلنا اس کے خلاف ہے۔ پس اس سے رکنِ عبادت ختم ہوگا، اس میں کم یا زیادہ برابر ہے جیسا کہ روزے میں کھانا اور طہارت میں حدث،، (ایضاً)
معمولی چیز بیچنے کیلئے لانا
ان احضار الثمن والمبيع الذی لا يشغل المسجد جائز.
(ردالمختار شامی، 2 : 449)
قیمت اور وہ سودا جو مسجد کو مشغول نہ کرے، مسجد میں لانا جائز ہے۔،،
افاد اطلاقه ان احضارما يشتريه ليا کله مکروه، وينبغي عدم الکراهة کمالا يخفي اي لان احضاره ضروري لاجل الاکل ولا نه لا شغل به لانه يسير.
صاحب درالمختار کا مطلقاً یہ کہنا کہ کھانے کی چیز خریدنے کیلئے حاضر کرنا مکروہ ہے، اسے مکروہ نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ واضح ہے کیونکہ اس کا حاضر کرنا کھانے کی ضرورت کی بنا پر ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان مشغول نہیں ہو جاتا کیونکہ یہ معمولی بات ہے۔ (شامی، : 4492 احکام القرآن للجصاص، 1 : 248)
امام علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی م 586 ھ فرماتے ہیں:
’’معتکف کیلئے جائز ہے بیچنا، خریدنا، نکاح کرنا، طلاق سے رجوع کرنا، لباس بدلنا، خوشبو لگانا، تیل لگانا، کھانا پینا، غروب آفتاب سے صبح صادق تک۔ جو چاہے باتیں کرے ہاں گناہ کی بات نہ ہو۔ مسجد میں سوئے، بیچنے خریدنے سے مراد ہے زبانی لین دین۔ یہ نہیں کہ سامان تجارت اٹھا کر مسجد میں لے آئے کیونکہ یہ مسجد کی وجہ سے منع ہے کہ اس سے تو مسجد منڈی بن جائے گی۔ اعتکاف کی وجہ سے کاروبار منع نہیں۔،، (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، : 1172)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے جعفر بن عقیل سے فرمایا تم نے خادم خریدا؟ انہوں نے کہا کنت معتکفاً میں اعتکاف بیٹھا تھا۔ فرمایا ماذا علیک لواشتریت،، خرید لیتے تو کیا حرج تھی؟،، اشارالیٰ جواز الشراء فی المسجد،، مسجد میں خرید و فروخت کے جواز کی طرف اشارہ فرما دیا۔،، (ایضاً)
اما الحديث محمول علیٰ اتخاذ المساجد متاجرا کا السوق يباع فيها وتنقل الا متعة اليها ويحمل علی الندب والاستحباب تو فيقا بين الد لائل بقدر الامکان.
’’رہی وہ حدیث پاک جس میں مسجدوں میں خریدو فروخت سے منع فرمایا گیا ہے، وہ اس صورت میں ہے کہ مسجدوں کو منڈی، بازار بنا لیا جائے کہ لین دین ہو رہا ہے، مال تجارت ان کی طرف لایا جائے۔ اس فرمان کو مستحب کا درجہ دیا جائے گا تاکہ دلائل میں ممکنہ حد تک موافقت پیدا ہو،،۔ (فتح القدیر، شرح ہدایہ : 3122 عالمگیری، : 2131)
مقصد دین آسانی ہے
قرآن کریم میں اعلان فرمایا گیا۔ ماْجَعَلَ عَلَيْکُمْ فِیْ الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ اس نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔، 22 : 78
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : يسروا ولا تعسرو! وبشروالاتنفروا. (بخاری، : 161)
’’آسانیاں پیدا کیا کرو، سختیاں مت پیدا کرو اور خوشخبریاں سنایا کرو! نفرت مت پیدا کرو!،،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں نماز میں قرات لمبی کرنا چاہتا ہوں۔
’’فاسمع بکاء الصبی فاخفف من شدة وجد امه به،،
(مسلم، 1 : 188)
’’پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو قرات مختصر کر دیتا ہوں کہ ماں بچے کی آواز سنکر پریشان نہ ہوجائے۔،،
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ:
يرِيْدُ اللّٰهُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيْدُبِکُمُ الْعُسْرَ.
(البقرہ، : 1852)
اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔
خلاصہ کلام :
اسلام، دینِ فطرت ہے، احکامِ شرع کی بنیاد سختی و دشواری پر نہیں بلکہ آسانی اور سہولت پر رکھی گئی ہے۔ جس حکم کی تصریح قرآن و سنت یا اجماعِ امت میں نہ ملے، وہاں لامحالہ قیاس و اجتہاد پر عمل ہوگا یا استحسان پر عمل ہوگا۔ جب یہ مرحلہ آئے گا تو فقہاء و مجتہدین اپنی اپنی فراست و بصیرت کو کامل خدا خوفی اور احساسِ ذمہ داری سے استعمال کریں گے۔ جیسا کہ قرآن وسنت کی واضح ہدایات ہیں۔ سوچ سوچ میں فرق ہوتا ہے تو نتائج بھی لامحالہ مختلف ہونگے اور ان اختلافات کی صورت میں امت کیلئے عمل کی ایک سے زائد راہیں کھلیں گی۔ ذہنوں میں وسعت اور عمل میں سہولت پیدا ہوگی۔ انسانی فکر ارتقا پذیر ہے، اس کو جلا ملے گی۔
ہم نے اعتکاف کی تمام تفصیل قرآن و سنت اور فقہائے امت کی تحقیقات کی روشنی میں بلا کم و کاست پیش کر دی ہے۔ ہم اس مسئلہ میں نہ اس شدت کے قائل ہیں جو امام اعظم رضی اللہ عنہ نے کمال احِتیاط سے اختیار فرمائی اور نہ اتنی تخفیف کی، کہ آدھے دن سے کم وقت باہر گذارے تو اعتکاف محفوظ اور زیادہ گذار ے تو اعتکاف ختم جیسا کہ صاحبین کا مذہب ہے۔
اگر اذان دینے کے چبوترے کا دروازہ مسجد سے باہر ہے اور معتکف اذان دینے کیلئے اس پر چڑھتا ہے تو لامحالہ اسے مسجد سے باہر جانا پڑا مگر اس سے بالاتفاق مؤذن کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔
جامع المنہاج بغداد ٹاؤن لاہور مرکز میں گذشتہ کئی سالوں سے متعلقین و متوسلین، ملک اور بیرون ملک سے کثیر تعداد میں، رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بڑے ذوق و اہتمام سے اعتکاف بیٹھتے ہیں اور ہر سال بفضلہ تعالیٰ اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہرسال وسعتِ تعمیرات تنگیء داماں کی شاکی رہتی ہے۔ اہلِ ایمان و تقویٰ اس اہتمام وانصرام پر اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور اس روز افزوں ترقی پر اللہ پاک کے حضور سر بسجود ہیں کہ اس دور میں ان کو تعلیم و تربیت اور تزکیہ کا ایک مثالی و تربیتی مرکز مل گیا ہے۔ جہاں وہ وقتاً فوقتاً حاضر ہو کر قلبی سکون پاتے ہیں۔ بالخصوص رمضان المبارک کے آخری عشرہ اعتکاف میں تو یہاں اہلِ ایمان کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہوتا ہے۔ ملک اور بیرونی دنیا کے کونے کونے سے ایمانی بالیدگی، روحانی ذوق وسکون اور ذہنی تعلیم و تربیت کے پیاسے اور سطوت ماضی کے متلاشی، اپنی مطلوب و محبوب دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔
کیا صرف اعتکاف ہی مقصد ہے؟
بات صرف اعتکاف کی ہو تو ہر مسجد میں بیٹھ سکتے ہیں مگر ایک باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت، تہجد، نماز پنجگانہ، چاشت، اشراق، درود وسلام، تلاوت، قصیدہ بردہ و دیگر حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن وحدیث و فقہ مثنوی،، علمی عملی تربیتی لیکچرز اور عملی تربیت، خوفِ خدا، فکرِآخرت، خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا، جدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن وسنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتانا، اولیاء، علماء، صوفیاء اور ائمہ دین کی صحبت و زیارت اور ان سے مسلسل فیوض و برکات حاصل کرنا، قرآن و سنت اور فقہ (قانون) کی بیش بہا معلومات اور پیش آمدہ مسائل کا اطمینان بخش حل اس اجتماعی اعتکاف کی منفرد خصوصیات میں سے ہیں۔ یہاں عقائد، اعمال، سائنس، تاریخ، سیاسیات، معاشیات سے متعلق ذہنی الجھنوں کوسلجھایا جاتا ہے۔ ذکر اور درود وسلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار، ذوقِ عبادت کی زبانی ہی نہیں عملی مشق کروائی جاتی ہے۔ یوں چند دنوں کی محنت سے سالہاسال کے زنگ قلوب واذہان سے صاف ہو جاتے ہیں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور فکر آخرت کی روشنی پیدا ہوجاتی ہے۔ چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق وشوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ان شاء اللہ ہمیشہ چمکتے دھمکتے رہیں گے۔ ہر مسجد میں یہ سب کچھ کہاں میسر ہے۔ قابل احترام معترضین سے ہماری یہی گذارش رہیگی کہ ۔۔ ۔
اُن کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو! زندگی کتنی حسین ہوتی ہے
مکہ معظمہ، مدینہ منورہ (حرمین شریفین) اور مسجد اقصیٰ و مسجد قباء وغیرہ سے کوئی تقابل نہیں۔ باقی تمام دنیا میں گھوم پھر کر بتاؤ کسی اور جگہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اعتکاف بیٹھتے ہیں؟ ہرگز نہیں وجوہات ہم نے ذکر کر دی ہیں۔
ایک ضروری وضاحت
بعض حضرات یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ منہاج القرآن کی مسجد سے باہر خیموں اور ملحقہ کمروں میں جو لوگ اعتکاف بیٹھتے ہیں وہ چونکہ مسجد سے باہر ہیں لہٰذا ان کا اعتکاف نہیں ہوتا، جس کی ذمہ داری منہاج القرآن کی انتظامیہ پر ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل اعتکاف تو مسجد میں ہی ہوتا ہے لیکن معتکفین کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مسجد میں سما نہیں سکتے۔ لامحالہ ملحقہ درسگاہیں بلکہ رہائش گاہیں یعنی طلبہ کے رہائشی ہاسٹلز اور مسجد سے باہر کا تمام میدان بھی خیمے لگا کر مسجد قرار دے دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دنیا کی اکثر دینی جامعات کہ ان سے ملحقہ عمارات بطور درسگاہیں بھی استعمال ہوتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر بطور مسجد بھی استعمال ہوتی ہے بلکہ عام مساجد بھی جمعہ، اجتماعات اور عیدین کے موقع پر جب نمازیوں سے بھر جاتی ہیں تو ملحقہ راستوں، سٹرکوں اور خالی پلاٹوں میں بھی صفیں بن جاتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
فضلت علی الانبياء بستّ اعطيت جامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنا ئم وجعلت لی الارض مسجدا وطهورا وار سلت الی الخلق کافة وختم بی النبيون.
’’مجھے دوسرے نبیوں پر چھ فضائل خصوصی طور پر عطاء ہوئے۔ مجھے جامع کلمات عطا ہوئے ( ایک دو لفظوں میں بہت زیادہ مفہوم ادا کیا جاتا ہے) مجھے رعب دیکر میری مدد فرمائی گئی۔ میرے لئے غنیمتیں حلال ہوئیں۔ میرے لئے تمام روئے زمین مسجد بنا دی گئی اور پاک فرمائی گئی اور مجھے تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا اور میرے ذریعے سلسلہ نبوت ختم ہوا۔،، (مسلم)
پس ایسی صورت میں مسجد سے ملحق تمام وہ جگہ جہاں جہاں نمازی صفیں بناتے ہیں مسجد بن جاتی ہے اور ہر نمازی کو مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
منہاج القرآن میں بھی جب کرم کی خصوصی بارش ہوتی ہے اور جب ہزاروں بلکہ لاکھوں کے اجتماعات ہوتے ہیں تو ظاہر ہے ہر نمازی مسجد میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔ پس اس مجبوری کی صورت میں جہاں جہاں معتکفین کیلئے توسیعی رہائشیں مسجد کی اطراف میں بنتی ہیں وہ سب مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہاں گھومنا پھرنا اعتکاف کی حالت میں بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی خلل نہیں آتا۔ دوسری طرف یہ توسیع دراصل بامرِ مجبوری، عارضی ہوتی ہے لہٰذا ملحقہ عمارات وخیمہ جات باقاعدہ مسجد نہیں اسلئے معتکفین کی ضروریات، کھانا پینا، دینی لٹریچر کتب کیسٹ وغیرہ کی اس خطے میں خرید و فروخت جائز ہے۔ یونہی کھانے پینے کی اشیاء بھی مخصوص جگہ میں خریدنا بیچنا جائز ہے۔ (شامی، 2 : 449)
یہ تمام اہتمام دراصل اعتکاف ہی کی بنا پر ہے اور معتکفین کی ہی ضرورت وسہولت کی خاطر ہوتا ہے۔ یہ کوئی عام منڈی و بازار نہیں بن جاتا جس کی ممانعت ہے۔ یہ تمام صورت حال، نہ ہر جگہ ہے نہ تھی اور نہ ہوگی۔ یہ تو کچھ خوش قسمت جگہ ہوتی ہے جہاں ایک اعتکافِ سنت و نفل کے ضمن میں مسلمانوں کو اتنی ساری برکتیں، سعادتیں اور روحانی کیفیتیں ایک مرکز سے میسر ہو جاتی ہیں۔ یہ مرکزِ فیض مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے عالمگیر مرکزِ فیض کا ہی مرہون منت ہے۔۔ ۔ صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنھم کے مراکز فیض سے فیضیاب ہے۔۔ ۔ بغداد، اجمیر، دہلی، لاہور، بخارا، کوفہ، نجف اور سرہند و بریلی کے مراکز سے فیضیاب ہے۔۔ ۔ یہ مرکزِ فیض قرآن، سنت، آثار، اسلافِ فقہ و قانون، تصوفِ اسلام کے فیض سے فیضیاب ہے۔ یہاں کالج، یونیورسٹی، دارالعلوم، جامعہ اور خانقاہ کی نورانی شعاعیں یکجا ہوتی ہیں۔ یہاں کسی پرطعن و طنز نہیں ہوتا ہے بلکہ شکستہ دلوں پر مرہم رکھی جاتی ہے۔
تبصرہ